اب مزار قائداعظم کو خطرہ ہے؟

حیرت ہے کہ بلوچستان میں ایک ڈپٹی کمشنر کیسے شہید ہو گیا۔ وہ بیوروکریٹ نہیں ہو گا، رینکر ہو گا۔ ملازم سے افسر بنا ہو گا ورنہ کبھی دہشت گردی میں سول افسر نہیں مرتے۔ ہمارے ہاں فوجی افسر تو شہید ہوتے ہیں، پولیس افسران بہت ہی کم شہید ہوتے ہیں۔ قائداعظمؒ کے آخری دنوں کی رہائش گاہ زیارت کی سکیورٹی کی ذمہ داری ڈپٹی کمشنر کی تھی مگر اتنے بڑے تاریخی قومی ورثے کیلئے حملے کے وقت ایک بھی گارڈ کوئی اہلکار نہ تھا۔ ڈپٹی کمشنر کی رہائش پر پوری سکیورٹی ہو گی۔ وہاں کبھی کسی دہشت گرد کو حملہ کرنے کا خیال نہیں آیا ہو گا۔ شاید اندر ہی اندر کوئی مفاہمت ہو۔ مفاہمت سے خیال صدر زرداری کی طرف جاتا ہے۔ ایوان صدر وزیراعظم ہاﺅس اور جہاں چاروں وزیراعلیٰ اور گورنر، مرکزی اور صوبائی وزیر شذیر رہتے ہیں، کسی قسم کے حکمران بڑے سیاستدان اور افسران وغیرہ ہوتے ہیں۔ کسی دہشت گردی کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ جی او آر ون لاہور میں عام آدمی کیلئے داخل ہونا بہت مشکل ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتنی بیش بہا جگہ کیلئے اتنی لاپروائی کیوں برتی گئی۔ وزیراعظم نواز شریف کو فوراً وہاں پہنچنا چاہئے تھا۔ ہزاروں بلوچ قائداعظم کی محبت میں وہاں جمع ہو کر مظاہرہ کر رہے تھے۔ وہ لوگ ہم سے بازی لے گئے۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ اور گورنر بھی زیارت نہیں گئے۔ کیا غیر سردار وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک اور گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی جہاں ہوں وہاں کوئی حملہ کوئی خودکش حملہ ہو سکتا ہے۔ گورنر پنجاب کو ایک پولیس کے نوجوان نے قتل کیا تھا۔ کسی شہر میں ایس ایس پی سی سی پی او کے دفتر کے سامنے سڑک کو توڑ کر دیواریں کھڑی کر دی گئی ہیں۔ ہائی کورٹ کے احکامات کی بھی پروا نہیں کی گئی۔ کسی عوامی جگہ کی تاریخی قومی عمارت پر سکیورٹی کی کوئی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ ہر شہر میں آدھی سے زیادہ پولیس صرف وی آئی پیز کی سکیورٹی پر مقرر ہے ارو عام لوگوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔
کیا زیارت کے ڈپٹی کمشنر کو کچھ کہا جا سکتا ہے؟ اسے پوچھا ہی نہیں گیا۔ آئی جی بلوچستان اور چیف سیکرٹری بڑی ڈھٹائی سے وہی باتیں کر رہے ہیں جو وزیراعظم گیلانی کے دور حکومت میں کرتے تھے۔ جائے واردات کو گھیرے میں لے لیا گیا ہے، سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے، تحقیقات شروع کرا دی گئی ہیں۔ نواز شریف نے مذمت اور اظہار افسوس کیا ہے۔ یہ تو رینٹل وزیراعظم مہاراجہ پرویز اشرف بھی کرتا تھا۔ جو کچھ ڈاکٹر عبدالمالک نے کیا ہے یہ تو اسلم رئیسانی بھی کرتا تھا۔ چودھری نثار اور رحمن ملک کے بیانات میں کوئی فرق نہیں۔
میرے منہ میں خاک.... خدانخواستہ اب کراچی میں مزار قائد کو خطرہ ہے، وہاں بھی سکیورٹی تب ہوتی ہے جب کسی حکمران نے وہاں جانا ہوتا ہے۔ کسی انتظامی افسر کو صاحب مزار کا خیال نہیں ہوتا۔ سب مزار قائد پر آئے ہوئے حکمران کے آگے پیچھے ہوتے ہیں۔ وہاں ایسا بندوبست ہو کہ وہاں مزار قائد پر آنے والے لوگوں کو کوئی تکلیف نہ ہو اور کسی کو یہ جرات بھی نہ ہو کہ وہ کوئی منفی کارروائی کر سکے۔ جتنے قومی ورثے ہیں، تاریخی عمارات ہیں، ان کی حفاظت کا خاص انتظام کیا جائے۔ حکمرانوں اور افسروں کی سکیورٹی اور پروٹوکول کم کیا جائے۔ اس ملک کے محب وطن عام لوگوں کیلئے کچھ کیا جائے.... جن کی زندگی شرمندگی بن چکی ہے اور یہ شرمندگی بھی محفوظ نہیں ہے۔ دوسری طرف زندگی کو درندگی بنا دیا گیا ہے۔ مٹھی بھر لوگوں نے حکومت، فوج اور انتظامیہ کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ پورا ملک دہشت زدہ ہے۔ دہشت زدگی دہشت گردی سے زیادہ خطرناک ہے۔ ہم دہشت گردوں کو بزدل کہتے ہیں۔ بزدل تو ہم ہیں کہ ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے یا کرنا نہیں چاہتے۔ وہ ظالم ہیں اور بہادر ہم بھی نہیں ہیں۔
دہشت گرد پاکستانی ہیں مگر انہیں بیرون ملک سے ٹریننگ، اسلحہ اور سرمایہ ملتا ہے۔ جب حکومت کے پاس دینے کو کچھ نہیں ہو گا تو پھر یہی ہو گا۔ کیا امریکہ میں کسی امریکی کو دہشت گردی کی راہ پر لگایا جا سکتا ہے۔ وہاں تو نائن الیون کے بعد کوئی خاص دہشت گردی کا واقعہ نہیں ہوا۔ کسی خوش حال، خودمختار، خودکفیل ملک میں ایسا نہیں ہو سکتا حتیٰ کہ دہشت گردی بھارت میں بھی کم ہوتی ہے۔ بھارت.... امریکہ اور افغان حکومت سے مل کر جو کچھ بلوچستان میں کر رہا ہے اسے سب جانتے ہیں۔ حکمران افسران بھی جانتے ہیں تو پھر کارروائی کیوں نہیں ہوتی۔ بھارت ممبئی حملوں میں اب تک پاکستان کو معاف نہیں کر رہا ہے۔ ہم بھارت پر الزام لگانے سے بھی ڈرتے ہیں۔ رحمن ملک وزیر داخلہ ہو کے وزیر اطلاعات بنا ہوا تھا۔ اس نے کئی بار اطلاع دی کہ بھارت بلوچستان میں بری طرح مداخلت کر رہا ہے۔ یہ مداخلت امریکی امداد اور مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ ہمارے کسی حکمران میں جرات ہے کہ وہ امریکہ کا نام لے۔ وہ بھارت کا نام بھی نہیں لیتے۔ نااہل اور کمزور مگر کرپٹ وزیراعظم گیلانی نے مصر کے شہر شرم الشیخ میں من موہن سنگھ سے ڈرتے ڈرتے کہا تھا کہ بھارت بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے۔ پھر وہ بھارت بھی گئے مگر شرم کے مارے بھارتی وزیراعظم سے اپنی شکایت کا ذکر نہ کر سکے۔
موجودہ وزیراعظم نواز شریف پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کے صدر ہیں۔ مجھے اسے ن لیگ کہتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے۔ مسلم لیگ.... مسلم لیگ ہے۔ ن.... ق.... ج.... د.... وغیرہ وغیرہ نہیں ہے۔ یقیناً مسلم لیگ کے صدر کو زیارت پر دہشت گردی سے تکلیف ہوئی ہو گی تو کیا وہ وہاں گئے قائداعظمؒ کے سچے فرزندوں پاکستان کے بیٹوں کو ریلیف تب ملے گا جب بیانات اور رسمی کارروائی کی بجائے کچھ ہو گا۔ خدا کی قسم یہ دہشت گردی سے کچھ آگے کا حادثہ ہے۔ دہشت گردی تو کئی برسوں سے مسلسل ہو رہی ہے۔ یہ تو قائداعظمؒ کی یادوں پر حملہ ہے۔ ان کی آخری نشانیوں پر حملہ ہے۔ یہ سقوط مشرقی پاکستان سے بھی خطرناک بات ہے۔ پاکستان بھی قائداعظمؒ کی نشانی ہے اور اس کے بعد میری زبان سے الفاظ نہیں نکلیں گے صرف میرے دل میں تڑپتے رہیں گے۔ یہ نظریاتی دہشت گردی ہے۔ یہ انتہا ہے۔ ہم تو سمجھے تھے کہ ابتدا ذرا لمبی ہو گئی ہے۔ اب انتہا کی ابتدا ہوئی ہے۔ نجانے ہم نے سقوط مشرقی پاکستان کا صدمہ کیسے برداشت کیا۔
محترم نوازشریف بھارت دوستی کے لئے بہت باتیں کرتے ہیں مگر ان سے دست بستہ گزارش ہے کہ وہ یہ بھی تو دیکھیں کہ بھارت نے کہاں کہاں کیا کیا صدمے ہمیں نہیں دیئے۔ امریکہ بھی ہمارے ساتھ اتنی زیادتیاں بھارت کے تعاون کے بغیر نہیں سکتا ہم کہتے ہیں کہ امریکہ افغانستان سے ہماری مدد کے بغیر نہیں نکل سکتا مگر امریکہ پاکستان میں بھارت کی مدد کے بغیر داخل نہیں ہو سکتا۔ وہ داخل ہو چکا ہے اور ہمیں بے دخل کرنے والا ہے۔ میں اس کے آگے کچھ کہوں گا تو میرا دل بند ہو جائے گا۔ میں پاکستان میں پیدا ہوا اور پاکستان ہی میں مرنا چاہتا ہوں۔ انشااللہ پاکستان کے دشمنوں کے ارادے خاک میں ملیں گے۔ وہ پہلے خاک وطن کو خون کی دلدل بنا دیں گے۔
ایک محفل میں پاسبان نظریہ پاکستان ڈاکٹر مجید نظامی نے کہا کہ آج میں بہت مغموم ہوں، ہم سب مغموم ہیں مگر ہمارے حکمران افسران اور ہمارے جرنیل ظالم کا سامنا کرنے کے لئے تیار نہیں۔ آپ لوگوں کو پتہ چلا ہو گا کہ نواز شریف کی سنجیدگی کیا ہے۔ وہ بھارت دوستی کی باتیں کرتے ہیں اور بھارت پاکستان دشمنی کی کارروائیاں کر دیتا ہے۔ قائداعظمؒ کی رہائش گاہ پر بلوچستان لبریشن آرمی کا جھنڈا لہرا دیا گیا۔ پاکستان آرمی کہاں ہے؟ ایک حوصلے کی بات کہ ہزاروں بلوچی لوگوں قائداعظمؒ کی جلتی سلگتی راکھ اور خاک میں لتھڑی ہوئی رہائش گاہ پر جا کے مظاہرہ کیا۔ قائداعظمؒ زندہ باد کے نعرے لگائے۔ یہ جواب ہے دہشت گردوں کو کہ تم ہم سے ہماری پاکستانیت نہیں چھین سکتے۔ قائداعظمؒ کی محبت ہمارے دلوں میں دھڑکتی ہے کے نعرے بلوچوں نے لگائے۔ بلوچستان نے پاکستان بن جانے کے بعد سب سے پہلے حمایت کی۔ بلوچستان پاکستان ہے۔ پاکستان زندہ باد کے نعرے بلوچوں نے لگائے۔ بلوچ لوگوں نے حکومت اور انتظامیہ کو بھی شرم دلائی ہے کہ تم بھی پاکستان دشمنی کو کوئی جواب دو۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ کیا تم بھی پاکستان کے ساتھ ہو؟ پاکستان کے بغیر تم زیرو بھی نہیں ہو۔ پاکستان نے تمہیں ”ہیرو“ بنایا ہے۔
ہماری ایجنسیاں کہاں ہیں۔ دھماکے کے بعد انہیں خبر ہوتی ہے۔ یہ دھماکے ایک خوفناک دھمکی میں بدلتے جا رہے ہیں۔ زیارت سے کراچی واپسی پر قائداعظمؒ کے لئے بھی بھیجی گئی ایمبولینس خراب ہو گئی اس کا پٹرول ختم ہو گیا۔ قائداعظمؒ کی عظیم بہن محترمہ فاطمہ جناحؒ مادر ملت اپنے آنچل سے اپنے پیارے بھائی کے منہ پر بیٹھنے والی مکھیاں اڑا رہی تھیں کیا یہ مکھیاں بھی دہشت گرد تھیں؟ خراب ایمبولینس اور لالچی مکھیاں کس نے بھیجی تھیں۔ قائداعظمؒ کے پاکستان کا یہ حال کرکے ہمارے حکمرانوں افسروں نے قائداعظمؒ کو دکھ پہنچایا ہے۔ یہ بھی دہشت گردی ہے۔ حکومتی اور افسرانہ دہشت گردی؟
کالم طویل ہو گیا ہے اور میرا دل اور قلم روئے جا رہا ہے۔ آخر میں ایک واقعہ.... زیارت میں قیام کے دوران خدمت گزار نرس نے ڈاکٹر کرنل الہی بخش سے شکایت کی کہ میرا تبادلہ کر دو۔ مجھے قائداعظمؒ پسند نہیں کرتے۔ بوڑھے اور بیمار قائد خفا ہوئے کہ تم مجھے پسند ہو کہ میری خدمت کرتی ہو۔ ایک بار نرس نے تکلیف میں قائداعظمؒ کے لئے خدمت کرنے کی انتہا کر دی۔ اسے یقین تھا کہ آج قائدؒ میرے لئے خوشی کا اظہار ضرور کریں گے۔ وہ بیٹیوں جیسی نرس کو دیکھ کر ہلکے سے مسکرائے۔ نرس نے کہا کہ لاکھ شکریئے بھی اس نرم مدہم مسکراہٹ پر قربان کئے جا سکتے ہیں۔ آج حکمران اور افسران قائداعظمؒ کی مسکراہٹ واپس لا سکتے ہیں؟

ای پیپر دی نیشن