مشاہدہ بتاتا ہے کہ میرے اور آپ کے پیارے رب نے نواز شرےف کی قسمت لکھتے وقت ان کے نصیب میں عزت دولت شہرت اور اقتدار لکھ دیا ہوا ہے اب اللہ کی اس دین کو برقرار رکھنا نواز شرےف کی ذمہ داری ہونی چاہئیے تھی مگر لگتا ہے کہ میرے اللہ نے نواز شرےف کا مقدر تو گولڈن سیاہی کے ساتھ تحریر کر دیا تھا مگر ایک نہیں کئی بار وہ اللہ تعالی کے لکھے ہوئے کو برقرار نہ رکھ سکے اس کی جو اہم وجہ سامنے آئی ہے وہ ان کی تیار کردہ مفاد پرست، کم فہم اور چاپلوس ٹیم قرار دی جاسکتی ہے اس ضمن میں ان کی ذاتی بصیرت کو بھی ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے لگتا ہے کہ نواز شرےف جو تیسری بار پاکستان کے وزیر اعظم بنے ہیں اس کی ایک وجہ ان کی ماں کی دعائیں ہیں جو ہر بار ان کی غلطیوں سے پیدا ہونے والے بحران اور نقصان کو کور کر لیتی ہیں کسی نے سچ کہا ہے کہ ماں خدا کا دوسرا روپ ہوتی ہے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کی مائیں زندہ ہیں اور وہ ماﺅں کی خدمت کر کے نیکیاں سمیٹ رہے ہیں۔
ماں مرتی مرتی بھی اولاد کے کام آ جاتی ہے۔ عنقریب ایک مثال سامنے آنے والی ہے کہ اگر حکومت نے پرویز مشرف کا نام ECL سے نکال کر انہیں باہر جانے کی اجازت دیدی تو اس کی وجہ بھی ان کی ماں کی بگڑتی ہوئی صحت اور حالت ہو گئی لیکن حالات بتاتے ہیں کہ نواز شریف اللہ کی دی ہوئی اس نعمت جسے دماغ کہا جاتا ہے کو استعمال کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ اس ضمن میں اس سے بڑا ثبوت اور کیا دیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے اور حکومت کے خلاف بیک وقت کئی محاذ کھلوا رکھے ہیں اور اگر انہوں نے اور ان کی ٹیم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے اور روز بروز بگڑتی ہوئی صورتحال کو کنٹرول کرنے کی کوشش اور تدبیر نہ کی تو شیخ رشید احمد کی گردان پوری ہونے کے چانسز نظر آنے لگے ہیں کہ موجودہ حکومت کی قسمت کا فیصلہ ایک دو مہینوں کے فاصلے پر کھڑا ہے۔اس بات کو نواز شرےف حکومت کے لئے نیک شگون قرار نہیں دیا جا سکتا کہ پاکستان کی عسکری قیادت اور حکومت ایک پیج پر نظر نہیں آ رہیں یہ سچ ہے کہ نواز شرےف کو سیاست پڑھانے اور سکھوانے والی فوج ہی ہے۔ جنرل ضیاءالحق نے نواز شرےف نامی پودے کی آبپاری کی تھی مگر یہ بھی سچ ہے کہ نواز شرےف جب جب اقتدار میں آئے انہوں نے فوج کے ساتھ اٹ کھڑکا لگائے رکھا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ میں نہیں کہتا کہ وہ جان بوجھ کر اپنی فوج کے گلے پڑتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جنرل ضیاءکے بعد فوج کے ساتھ ان کے تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے۔ ان کے اور فوج کے مابین ہمیشہ ہی سردجنگ جاری رہی ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ نواز شرےف حکومت نے پرویز مشرف کے ساتھ خواہ مخواہ کا پنگا لیا ہوا ہے ایک 70 سالہ ریٹائرڈ فوجی جرنیل سے انہیں یا ان کی حکومت کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے۔ پرویز مشرف کو اپنے کئے کی جتنی سزا ملنی چاہئیے تھی میرے نزدیک اس سے زیادہ مل چکی ہے۔ بے شمار اہم معاملات میں حکومت کنفیوژ ہے۔ کبھی کبھار تو لگتا ہے کہ مت ماری گئی ہے وطن سے محبت نامی کوئی چیز اس کے اندر ہے ہی نہیں بھارت جا کر نریندر مودی سے ملاقات کی برا نہیں کیا۔ برا صرف اتنا کیا کہ مودی کی تلخ باتیں اور الزامات تحمل سے سنے اور پھر ردعمل بھی ظاہر نہیںکیا۔ یہ امر بے شرمی و بے حسی کے زمرے میں آتا ہے۔ عام آدمی کی اشیاءضروریہ کی بڑھتی ہوئی قیمتیں بے روزگاری، لاقانونیت، نا انصافی، تھانہ کلچر اور لوڈشیڈنگ نے عام آدمی کا جینا محال کر دیا ہوا ہے۔ پاکستان کا عام آدمی ظلم، مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں بری طرح پس رہا ہے خودکشیاں کر رہا ہے مائیں بچوں کو مارنے اور بیچنے پر مجبور ہیں ہزاروں گھرانوں کے چولہے بجھ چکے ہیں چوریاں ڈاکے بڑھ چکے ہیں بجلی و دیگر اشیاءکی قیتمیں آﺅف آف کنٹرول ہیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی PPP اپنی کرپشن چھپانے اور بچانے کے لئے فرینڈلی اپوزیشن بن کر اپنی باری کا انتظار کر رہی ہے۔
عمران خان کل تک غریب اور سفید پوش طبقے کی امید بنے ہوئے تھے مگر انہوں نے بھی آج تک مہنگائی بے روزگاری لاقانونیت اور بے انصافی کے خلاف کوئی دھرنا نہیں دیا کوئی ریلی نہیں نکالی وہ انتخابی دھاندلی کے خول سے باہر نکلنا ہی نہیں چاہتے۔ مجھے کہنے دیجئے کہ عمران خان نے بھی پاکستان کے غریبوں اور محنت کشوں کو مایوس کیا ہے۔ شیخ رشید احمد یقیناً غریب اور پسے ہوئے طبقے کی بات کرتا ہے مگر اس کی حالت دیکھ کر اسے ”جمعہ جنج نال“ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اپنی عوامی حیثیت پرکھنے کے لئے 20 جون کو ٹرین مارچ کرنے جا رہا ہے اس ٹرین مارچ کی کامیابی و ناکامی کے بارے میں رائے زنی کرنا قبل از وقت ہے البتہ اتنا ضرور کہوں گا کہ جون کی بھیانک گرمی میں کوئی عقل کا اندھا ہی گرم ٹرین کا سفر کرے گا۔
23 جون کو کینیڈین شہزادہ طاہر القادری پاکستانی حکومت کا برج الٹنے اور نظام لپیٹنے کے لئے پاکستان آ رہا ہے دھرنے دے گا ریلیاں نکالے گا جلسے کرے گا مقصد صرف اتنا کہ حکومت کو دھڑام سے گرا دیا جائے اس نے حکومت اور نظام کو موم کی گڑیا سمجھ رکھا ہے شاید۔پاکستان کی سیاسی پارٹیاں دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہوئی ہیں ایک وہ جو موجودہ حکومت کا برج الٹانے کے بعد فوجی اقتدار لانا چاہتی ہےں ۔