لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس محمد خالد محمود خان نے ہیپاٹائٹس بی اور سی میں لیور سیروسز سے بچاؤ کے ایک لاکھ سستے ٹیکوں کے ضیاع کی انکوائری کیلئے کمیشن مقررکرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ یہ قوم کی صحت کا معاملہ ہے۔ عدالت معاملے کی تہہ تک جائے گی۔ سستے ٹیکوں کا ضیاع ثابت ہو گیا تو ذمہ دار افسر جیل جائیں گے۔ فاضل عدالت نے ڈائریکٹر جنرل سنٹر آف اپلائیڈ مالیکولر بیالوجی ڈاکٹر اقبال کو عبوری طور پر معطل کر دیا۔ فاضل عدالت نے ہیپاٹائٹس سی کے مریضوں کو سستے ٹیکے فراہم کرنے کیلئے دائر درخواست پر سماعت کی۔ عدالت کے فوری نوٹس پر ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ پنجاب پروفیسر زاہد پرویز اور رجسٹرار پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر امین اطہر پیش ہوئے۔ درخواست گزار کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ اور حافظ طارق نسیم نے فاضل عدالت کو بتایا کہ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے افسر اور فارماسیوٹیکل کمپنیوں کا مافیا مریضوں کو 70 روپے میں انٹر فیرون ٹیکے کی فراہمی میں گزشتہ 6 برسوں سے رکاوٹ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 2008ء میں پاکستانی سائنسدانوں نے ایک لاکھ سستے ٹیکے تیار کئے جو پنجاب یونیورسٹی میں وزارت کے کولڈ سٹوریج میں پڑے پڑے ضائع ہو گئے، وکلاء نے بتایا کہ مافیا نے حکومتی افسروں سے ملی بھگت کر کے پاکستانی سائنسدانوں کو سنٹر آف اپلائیڈ مالیکولر بیالوجی سے نکلوایا اور وہاں پر ایک غیر متعلقہ افسر ڈاکٹر اقبال کو ڈائریکٹر جنرل تعینات کروایا۔ عدالت میں موجود پاکستانی سائنسدانوں کی ٹیم کے رکن ڈاکٹر احمد عثمان نے تصدیق کی کہ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے افسران اور فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے مافیا کی وجہ سے ایک لاکھ ٹیکے ضائع ہوئے، انہوں نے بتایا کہ پاکستانی سائنسدانوں کی ٹیم نے ایک لاکھ ٹیکوں کے علاوہ گیارہ لاکھ ٹیکوں کا خام مال بھی تیار کر لیا تھا۔ کیس کی مزید سماعت 26 جون تک ملتوی کر دی۔