لندن (بی بی سی+رائٹرز) برطانیہ میں اْن والدین کو سات سال تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے جو اپنے بچوں کی جبری شادی کرنے کی کوشش کریں گے۔ انگلینڈ اور ویلز میں نافذ ہونے والے نئے قانون کے تحت جبری شادی کرانا قانونی طور پر جرم تصور ہو گا۔ جبری شادی کے خلاف مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ اس سے لوگوں کو واضح پیغام ملے گا۔ اعداد و شمار کے مطابق انگلینڈ اور ویلز میں ہر سال تقریباً آٹھ ہزار نوجوانوں اور لڑکیوں کی زبردستی شادی کر دی جاتی ہے۔ وزرا کا کہنا ہے کہ اس قانون کے نفاذ سے ایسے معاملات کے شکار بچوں کو حوصلہ ملے گا اور وہ جبری شادیوں کے خلاف آگے آئیں گے۔ یہ قانون صرف انگلینڈ اور ویلز ہی نہیں بلکہ بیرون ملک برطانوی شہریوں کو بھی تحفظ فراہم کرے گا۔ برطانیہ میں آباد جنوبی ایشیائی کمیونٹی سے منسلک لوگوں میں ایسے کئی معاملے سامنے آتے رہے ہیں۔ ان ممالک میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش شامل ہیں۔ برطانیہ میں رہنے والی ثمیم علی خواتین کے حق کے لیے کام کرتی ہیں وہ خود کم عمری میں جبری شادی کا شکار ہو چکی ہیں۔ اْن دنوں کو یاد کرتے ہوئے ثمیم کہتی ہیں کہ 12 سال کی عمر میں انہیں سکول سے نکال لیا گیا اور برطانیہ سے پاکستان بھیج دیا گیا۔ 13 سال کی عمر میں ان کی جبری شادی کر دی گئی اور انہیں ایک نامعلوم شخص سے زبردستی جسمانی تعلقات بنانے کے لیے مجبور کیا گیا۔ 14 سال کی عمر میں انہوں نے ایک بچے کو جنم دیا۔ نیشنل سوسائٹی فار پریوینشن آف کرویلٹی ٹو چلڈرن‘ نامی تنظیم برطانیہ میں بچوں کے لیے کام کرتی ہے۔ ادارے کے مطابق ان کی ہیلپ لائن نمبر پر ایسے کئی بچے کال کرتے ہیں جنہیں ڈر ہوتا ہے کہ ان کی زبردستی شادی کر دی جائے گی اور ان میں ایک چوتھائی کی عمریں 12 سے 15 سال کے درمیان ہوتی ہیں۔