حکومت ِ پاکستان کے ذرائع آمدنی نہایت محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ 2015-16ء کے بجٹ کے حوالے سے وزیر خزانہ نے ٹیکس نیٹ ورک بڑھانے پر بار بار زور دیا ہے۔ حالانکہ انڈسٹریل پیدوار، زرعی پیداوار اور ایکسپورٹ بڑھانے پر زور دینا چاہئے تھا۔ جانے وزیر خزانہ نے ملکی پیدوار بڑھانے کو کیوں نظر اندز کیا؟ملک کی انڈسٹریل پیدوار بڑھانے سے کئی بے روز گار لوگوں کو روز گار بھی مل سکتا ہے۔ الحمداللہ ملک میں امن و امان کی صور ت ِ حال پہلے سے بہتر ہورہی ہے اس بارے میں دو چارروز پہلے ہماری افواج کے چیف نے کراچی میں ایک ایسا سیاسی اور پیشہ وارانہ ملا جلا بیان دیا ہے جو ملک کے اندراورملکی حدود سے باہر کے لوگوں کے لیے پاکستانی فورسز کا دو ٹوک اپنی طاقت اور حکومت پاکستان کی جانب سے پالیسی بیان ہے۔ جس میں ملکی امن کے بارے میں خاص طور پر ذکر کیا گیا۔بہر حال ایسے حالات میں وفاقی اور صوبائی محکمہ انڈسٹری اور محکمہ زراعت کے اربابِ بست و کشاد کو وزیر خزانہ کیوں متحرک نہیںکر پا رہے اور اُن کے ساتھ ساتھ محکمہ ایکسپورٹ کو کیوں ایکسپورٹ بڑھانے پر رضا مند نہیںکر رہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ ہم سبزیاں اور فروٹ انڈیا سے منگوا کر رکھا ہے ہیں۔ محکمہ زراعت والے ز میندار کو کیوں موبیلائز (MOBILIZE)نہیں کرتے۔ ایک زرعی اور نہری نظام دنیاکا بہتر نیٹ ورک رکھنے والا ملک اس قدر مجبور ہو چکا ہے کہ اپنے لوگوں کے لیے سبزیاں اور فروٹ بھی پیدا نہیں کر سکتا۔کیا پاکستان کی زمینیں بانجھ ہو گئی ہیںہم آلو،پیاز، آم ،کھجور،کینو،چاول وغیرہ پیدانہیںکرسکتے۔کپاس ایکسپورٹ کریںبلکہ کپڑا ایکسپورٹ کریں ۔کیونکہ مال ایکسپورٹ کرنا قوم کا خون ایکسپورٹ کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔گندم سابقہ ایک دوسالوںکی بھی سرکاری گوداموں میں پڑی ہے اس مرتبہ حکومت نے زمینداروں سے بہت کم گندم خریدی ہے بلکہ زمینداروں کو پہلی باردانہ فراہم کیا گیا بعد میں واپس لے لیا گیا۔بدیں وجہ زمینداروں کو کم ریٹ پر گندم فروخت کرنا پڑی۔وزیر خزانہ ٹیکس مزید لگانے اور خوانچہ والے اور ریڑی والے پر بھی ٹیکس عائد کرنا چاہتے ہیں۔ جب کہ محکمہ ٹیکس کے ملازمین کی کوشش ہوتی ہے کہ ٹیکس دہندگان اُن کی جیب گرم کر دیں اور تھوڑا بہت ٹیکس حکومتی خزانے میں جمع کروا کر خانہ پُری کردیں۔وزیر خزانہ کیا ایسی کالی بھیڑوں کا کوئی علاج کر سکتے ہیں؟جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے اکثر سرکاری ملازمین کو پیٹ پوجا کرتے ہی دیکھا ہے۔ امپورٹ اور ایکسپورٹ کے محکمہ جات کے آفیسر کیا کر رہے ہیں سفید ہاتھیوں کو ٹاسک دیا جائے کہ زمیندار کی ضرورت کے مطابق مدد کی جائے، انڈسٹری کو گیس اوربجلی فراہم کی جائے تاکہ زرعی اور انڈسٹریل پیداوار بڑھائی جا سکیں۔محکمہ زراعت محکمہ انڈسٹری اور محکمہ ایکسپورٹ کے افسران کو فیلڈ میں بھیجا جائے تاکہ زمیندار اور انڈسٹریلسٹ (Industrialist)کی امداد کریں۔ اور ایکسپورٹ والے دنیا بھر کی منڈیوں میں اپنے ملک کی پیدوار فروخت کرنے کے لیے ہمہ وقت تندہی سے کام کریں ۔ یہ نہ ہو کہ سیر سپاٹا کر کے آجائیں۔ ملک ِ خداداد میں سیاست دان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ہر روز نئے نئے شوشے چھوڑتے رہتے ہیں۔ٹی وی چینلز پر روزانہ سینکڑوں کرنٹ آفیرز کے پروگرام چلتے ہیں۔ اخبارات اور جریدوں میں روزانہ ہزاروں کالم سیاسی تجزیات پر مبنی شائع ہو رہے ہیں سب کا رزلٹ کیا ہے؟ کبھی کسی کالم یا سیاسی تجزیہ کا حکومتی ارکان نے نوٹس بھی لیا ہے؟ سیاسی کالموں میںا ور ٹی وی چینلز پر سیاسی تجزیات میں سوائے کسی نہ کسی سیاسی لیڈر پر گند اچھالنے کے اور کیا رہ گیا ہے۔ گند کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ حکمرانوں اور سیاسی لیڈروں کا مقولہ یہ سننے میں آرہا ہے۔
عرفی تو میندیش زغوغائے رقیباں
کہ آوازِ سگاں کم نہ کند رزق گدارا
یہ اس لیے سیاسی نکار خانے میں طوطی کی آواز سنائی ہی نہیں دے رہی۔ ہر سیاسی پارٹی نے دو دو تین تین افراد دیگر سیاسی پارٹیوں کے خلاف روزانہ بیانات جاری کرنے پر لگا رکھے ہیں اور حکومتی پارٹی کے خلاف جس قدر بیان بازی ہوتی ہے اس کے جوابات اور الزامات کے لیے بھی حکومت کی جانب سے دو تین افراد متعین ہیں۔ملک کے تمام سرکاری محکموں میں کرپشن انتہا کو پہنچ چکی ہے ۔ مہنگائی کمر توڑ ہے ،حکومت اگر مہنگائی اورذخیرہ اندوزی کی روک تھام کے لیے کوئی قانون نافذ کرتی ہے تو سرکاری اہلکاروں کی چاندی ہو جاتی ہے ۔ ذخیرہ اندوزی اور مہنگائی تو ختم نہیں ہوتی مگر ذخیرہ اندوز لاکھوں روپے روزانہ کماتے ہیں۔پڑوسی ملک انڈیا میں آلو دس روپے کلو فروخت ہو رہا ہے تو ہمارے ہاں ساٹھ ستر روپے کلو کے حساب سے فروخت ہوتا ہے۔ یہی حال دیگر تمام اشیائے خورد ونوش اور روزمرہ ضروریات ِ زندگی کا ہے۔پاکستان میں آخر انڈیا کے مقابلے میں ہر چیز اس قدر مہنگی کیوں ہے؟کبھی کسی سیاسی رہنما نے اس طرف توجہ کی ہے؟تمام سیاسی رہنما قوم کی نظروں اور ذہن کو اس طرف سے ہٹانے کے لیے نیچے سے اوپر تک کے الیکشنوں اور ذاتیات پر الزام تراشی کے ساتھ لوٹ مار پر لگے ہوئے ہیں۔ حوس ِ اقتدار صرف اور صرف قومی خزانہ لوٹنے کے لیے ہے۔ عوام الناس کی نبض پر کسی کا ہاتھ نہیں۔ عوام الناس کی ضروریات ِ زندگی اور عوام الناس کو مہنگائی کے جن سے نجات دلانے کے لیے کون سوچ رہا ہے؟آج جو دس ہزار روپے ماہوار کما رہا ہے وہ بھی رو رہا ہے اور جو دس لاکھ کما رہا ہے وہ بھی رو رہا ہے۔ سیاست دان تین تین سو کنال زمینوں پر محل بنا رہے ہیں اور ملک کے بڑے شہروں خاص طور پر کراچی لاہور میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ فٹ پاتھوں پر زندگی گزار رہے ہیں۔ ملک میں سیاسی استحکام ہے نہ معاشی۔ ہم کچی پکی گڑھوں والی سڑکوں پر چلتے ہوئے گفتگو امریکہ کے سسٹم کی کرتے رہتے ہیں۔ ہماری سیاسی اور معاشی زندگی کا ہم نے آج تک انڈیا سے تو تقابلی جائزہ کیا ہی نہیں۔اور گفتگو میں مثالیں امریکہ کی پیش کرتے ہیں جہاں کامیاب جمہوری اور ملکی مفاد کا سسٹم چل رہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم اگر کوئی دھمکی آمیز بیان جاری کر رہا ہے تو اس کے پس منظر میں ضرور کچھ ہے۔ لیکن ہم صرف اور صرف ٹیکسوں کے بڑھانے پر زور دے رہے ہیں۔اپنے حالات اور اپنے ملک کے اندر جو بھارتی ایجنٹ ہیں ان کی کارروائیوں کی طرف توجہ دینے کا ہمارے پاس وقت ہی نہیں۔ ہر پارٹی کے سیاسی کارکن اپنے لیڈر کی چاپلوسی کے درپے ہیں کوئی اپنے لیڈر کو قومی مفاد کا مشورہ دینے کے لیے تیار نہیں۔بھارتی ایجنٹوں اور تخریب کاروں پر کسی کی نظر نہیں۔بھارتی وزیر اعظم کا بابری مسجد سے موجود ہ دھمکی آمیز بیان تک کردار پوری پاکستانی قوم کے سامنے ہے۔
بھارتی وزیراعظم نے ہمیشہ بال ٹھاکرے کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور ہم اس قدر کمزور ہیں کہ پاکستانی اسمبلیوں میں متفقہ مذمتی قرارداد بھی پاس نہیں کر سکے۔ نہ ہی ہمارے سیاسی رہنمائوں نے اپنے بیانات کے ذریعے اظہار کیا ہے کہ ہم قومی مفادات کے معاملات کے حوالے سے ایک ہیں۔
وفاقی بجٹ اور ٹیکس
Jun 17, 2015