زیر نظر مضمون میں درج ذیل چار تصورات کے بارے میں حقیقی صورت ِ حال واضح کی جائیگی :ہر سال دریائے سندھ کا 35ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر کی نذر کر دیا جاتا ہے۔اگر کالاباغ ڈیم تعمیر کر لیا جائے تو پاکستان کے پانی کے تمام مسائل حل ہوجائینگے۔اگر کالاباغ ڈیم تعمیر کر لیا جائے تو سیلاب نہیں آئیگا۔ سندھ کو منگلا ڈیم سے پانی کی ایک بوند بھی نہیں ملتی اور یہ ڈیم صرف پنجاب کی آبی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ کالا باغ ڈیم پراجیکٹ کے بارے میں ہونیوالی بحث سے متعلق ایک واہمہ یہ بھی ہے کہ ہر سال دریائے سندھ کا 35 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر کی نذر کر دیا جاتا ہے۔
ایک مشہورمقولہ ہے کہ جھوٹ کی تین اقسام ہوتی ہیں۔ جھوٹ، سفید جھوٹ اور اعداد و شمار ۔ دریائے سندھ کے بالائی علاقوں میں مقیم مصنّفین کی کم و بیش تمام تحریروں میں پانی کی سالانہ دستیابی کے اعداد و شمار کو کالا باغ ڈیم پراجیکٹ کی تائید کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ اگر ایک طویل عرصہ پر محیط پانی کے سالانہ اوسط بہاﺅ کو مدِّنظر رکھا جائے تو یہ اعداد و شمار درست ہیں۔ لیکن مذکورہ اوسط بہاﺅ سے جو اہم بات ظاہر نہیں ہوتی وہ دریا میں پانی کے بہاﺅ کا ہر سال مختلف ہونا ہے۔ جو پانی کسی ایک سال کے دوران ذخیرہ کرنے کیلئے میسر ہوتا ہے عین ممکن ہے کہ وہ اگلے سال دستیاب نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ماضی قریب میں ہمارے دریائی نظام میں پانی کے بہاﺅ میں بہت زیادہ تغیّردیکھنے میں آیاہے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پانی کے بہاﺅ میں یہ غیریقینی رُجحان مزید بڑھ سکتا ہے۔پانی کے بہاﺅ کی گذشتہ 50 سال میں خشک سالی اور سیلاب کے دنوں میں آنیوالے بہت زیادہ پانی کی اوسط ، صورتحال کی صحیح عکاسی نہیں کرتی۔
سال 2002-03 ءمیں جب صدر پرویز مشرف نے کالاباغ ڈیم تعمیر کرنے کیلئے اپنی مہم کا آغاز کیا، تو اُنہوں نے بارہا اس بات کا حوالہ دیا کہ ہر سال 35 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں گرکر ضائع ہوجاتا ہے۔ اُنکی اِس دلیل سے کالاباغ ڈیم کی تعمیرپر جمی برف تو کیا پگھلتی، سندھ کے لوگوں نے اسے اپنی عقل کی ہتک پر محمول کیا۔ صدر پرویز مشرف کی بدقسمتی کہ اُن خشک سالی کے گذشتہ پانچ سال کے درمیان کوٹری بیراج سے زیریں جانب ہرسال اوسطاً پانی کا بہاﺅ محض 3.47 ملین ایکڑ فٹ تھا۔ ذیل میں دیا گیا گراف صورتحال کی بہتر انداز میں وضاحت کرتا ہے۔ 40سال کے عرصہ پر محیط پہلے جدول سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دوران ہر سال اوسطاً 30ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں جا رہا ہے۔ جبکہ 1999ءسے 2005 ءکے دوران خشک سالی کا دور دورہ رہا اور اس عرصہ میں اوسطاً ہر سال کوٹری بیراج سے زیریں جانب پانی کا اخراج صرف 5.73ملین ایکڑ فٹ رہا۔
کوٹری بیراج سے زیریں جانب پانی کا اخراج
خشک سالی کے دوران کوٹری بیراج سے زیریں جانب پانی کا اخراج(ملین ایکڑ فٹ میں)
1999-2000،(خریف) 8.72،(ربیع) 0.11، (میزان)8.83
2000-2001، (خریف) 0.77،(ربیع) 0.00، (میزان) 0.77
2001-2002، (خریف) 1.93، (ربیع) 0.00، (میزان) 1.93
2002-2003(خریف) 2.32 ، (ربیع) 0.05،(میزان) 2.37
2003-2004، (خریف) 20.12، (ربیع) 0.07، (میزان) 20.19
2004-2005،(خریف) 0.21، (ربیع) 0.08، (میزان) 0.29
اوسط 1999-2005،(خریف) 5.68، (ربیع) 0.05، (میزان) 5.73
اگر کالاباغ ڈیم تعمیر کر لیا جائے تو پاکستان کے پانی کے تمام مسائل حل ہوجائینگے۔ بعض لوگ اس خوش گمانی کا شکارہیں کہ پاکستان کی موجودہ اور مستقبل میں پانی کی ضروریات کیلئے کالاباغ ڈیم اکسیر اعظم کی مانند ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آبی ماہرین اِسے ایک اچھاآبی منصوبہ سمجھتے ہیں ۔ مگر ا سکی فوری تعمیر ممکن نہیں۔ اگر بالفرض محال کالاباغ ڈیم پر تمام صوبے آئندہ چند ہفتوں میں متفق ہوجائیں ، تب بھی اس پر تعمیراتی کام 3سال کے بعد شروع ہو سکے گا۔ پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی موجودہ صلاحیت 14.02ملین ایکڑ فٹ ہے آبی ذخائر میں مٹی بھرنے کے قدرتی عمل کی وجہ سے سات آٹھ سال کے بعدیہ13.32ملین ایکڑ فٹ رہ جائیگی۔امید ہے کہ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر آئندہ سال شروع ہوجائیگی۔ اس تعمیر کے شروع ہونے کے تین چار سال بعد اگر کالا باغ ڈیم بھی شروع کیا جائے تو دونوں کے مکمل ہونے پر یہ صلاحیت 25ملین ایکڑ فٹ سے زائد ہوجائیگی ، جو40سال قبل منگلا اور تربیلاکی تعمیر کے بعد ہماری پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت سے تقریباً 30فیصد زیادہ ہوگی۔ یعنی ہم اپنے دریاﺅں میں پانی کے سالانہ بہاﺅ کا20فیصدسے بھی کم ذخیرہ کرسکیں گے جبکہ دُنیا بھر میں دریاﺅں میں پانی کے سالانہ بہاﺅ کا اوسطاً 40فیصد ذخیرہ کیا جاتا ہے۔اس لئے ہماری پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں صرف محدود اضافہ ہی ہوگا۔اگر کالاباغ ڈیم تعمیر کر لیاجائے تو سیلاب نہیں آئےگا۔کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حامی کسی قدر خوش فہمی کا شکار ہیں ۔ وہ اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ کالاباغ مستقبل میں سیلاب کے کسی بھی ممکنہ خطرے کو دُور کردیگا۔ مجھے 2010ءکے تباہ کن سیلاب کے بعد لکھے گئے بہت سے مضامین اور دستاویزات پڑھنے کا اتفاق ہُوا، جن میں یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ کالاباغ ڈیم دریا کا تمام پانی روک لے گا اور ملک سیلاب کی تمام تباہیوں سے محفوظ ہو جائے گا۔کیا یہ درست ہے؟ اور اگر کالا باغ ڈیم ہوتا تو وہ 2010ءکے سیلاب کی شدّت کو کم کرنے میں کیا کردار ادا کرتا؟ اِ ن سوالوں کا درست جواب شاید بہت سے لوگوں کی خوش گمانی کو کم کردے۔ کالا باغ ڈیم دریائے سندھ کے 8لاکھ 97ہزار کیوسک کے سیلابی ریلے میں کمی تو لاتا،مگر ڈیم کے مقام سے نیچے خارج ہونے والا پانی بھی انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہی رہتا ۔ بعض کالم نگار وں کی جانب سے 2014ءکے سیلاب کے دوران تحریر کئے گئے مضامین میں کیا جانیوالا یہ دعویٰ درست نہیں تھا کہ اگر کالاباغ ڈیم موجود ہوتا تو دریائے چناب میں آنےوالے سیلاب سے بچاﺅ ممکن تھا۔
ایک اور تاثر جو حقیقت پر مبنی نہیں ہے ، وہ یہ ہے کہ سندھ کو منگلا ڈیم سے پانی کی ایک بوند بھی نہیں ملتی اور یہ ڈیم صرف پنجاب کی آبی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔پانی کے مسائل پر اپنے سندھی دوستوں کی تحریروں کے مطالعہ یا اُن سے گفتگو کے دوران یہ بات بلا کم و کاست سامنے آئی کہ 1967ءمیں منگلا ڈیم کی تکمیل کے بعد اس ڈیم سے کبھی بھی سندھ کو پانی مہیا نہیں کیا گیا ۔ اِس تاثر کے جڑ پکڑنے کی ایک وجہ دونوں صوبوںکے درمیان سندھ طاس کے متعلق پایا جانیولا اختلاف ہے ۔ پنجاب کے آبی ماہرین سندھ طاس کو مجموعی طور پر لیتے ہیں اور وہ اِ س طاس کے دریاﺅں میں کوئی تخصیص نہیں کرتے۔ جبکہ سندھ کے آبی ماہرین دریائے سندھ کو اسکے معاون دریاﺅں یعنی جہلم اور چناب سے الگ کرکے دیکھتے ہیں ۔ 1960ءمیں سندھ طاس معاہدے کے نتیجے میں تین مشرقی دریاﺅں کی بھارت کو حوالگی کے بعد منگلا ڈیم سندھ طاس متبادل منصوبوں کے تحت تعمیر کیا گیا۔ یہ ڈیم بھارت کے پاس چلے جانیوالے تین دریاﺅں کے پانی کی کمی کے ازالے کےلئے بنایا گیا تھا جس سے سندھ میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ دریائے سندھ میں اب دریائے جہلم سے پانی شامل نہیں ہوگا کیونکہ منگلا میں ذخیرہ کیا جانیوالا پانی صرف پنجاب کے استعمال کیلئے ہوگا۔اور نتیجتاًدریائے سندھ کے پانی میں کمی واقع ہو جائےگی ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ منگلا ڈیم سندھ طاس کے مربوط نظام کا حصہ ہے اور ارسا دریائے جہلم اور دریائے چناب میں پانی کے بہاﺅ کو صوبوں کی طلب کیمطابق کنٹرول کرتا ہے۔
پنجند بیراج سے گزرنے کے بعد دریائے جہلم اور دریائے چناب کا مشترکہ پانی مٹھن کوٹ کے مقام پر دریائے سندھ سے جا ملتا ہے جو گدو بیراج سے صرف 100کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔
سندھ کے آبی ماہرین کے شکوے اور شکایت کئی لحاظ سے درست ہوسکتے ہیں مگر ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ40سال کے دوران ہر سال اوسطاً15.8 ملین ایکڑ فٹ پانی پنجند بیراج سے گزرکر دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے۔ پانی کی اس مقدار کو ماپنا نہایت آسان ہے کیونکہ دریائے سندھ کے مجموعی پانی کی پیمائش صوبہ سندھ میں گدو کے مقام پر کی جاتی ہے۔