’’سانحہ طورخم کے بعد‘‘

گذشتہ اتوار کو پاکستان کی مغربی سر حد پر افغانستان کی فوج نے ہماری اپنی حدود کے اندر گیٹ تعمیر کرتی ہوئی ایف سی اور خاصہ وار فورس پر فائرنگ کی۔ فائرنگ کا بھر پور جواب دیا گیا مگر یہ وقفے وقفے سے تین دن جاری رہی۔اسکے نتیجے میں میجر علی جواد چنگیزی شہید اور 19لوگ زخمی ہوگئے۔ کشیدگی تادم تحریر قائم ہے۔سر حدوں پر فائرنگ کے واقعات ہوجاتے ہیں مگر اس واقعہ کے کچھ خاص پہلو غور طلب ہیں۔

1۔جب سے ہم نے پاک چائنا اقتصادی راہداری (CPEC) پر سنجیدگی سے کام شروع کیا ہے اس وقت سے ہم پر امریکی دباؤ اور علاقے میں مودی کی بھاگ دوڑ بڑھ گئی ۔امریکہ نے F-16طیارے نہ دینے کا فیصلہ کیا،امداد کو حقانی نیٹ ورک کیخلاف کارروائی سے مشروط کردیا،تحریک طالبان کے سربراہ ملاّ اختر منصور کو ہمارے اسی کوریڈور کے علاقے میں ڈرون حملے کا نشانہ بنا کر اٖفغان امن مذاکرات کو سبوتاژ کیا، مودی کو امریکی کانگریس کے اجلاس میں خطاب کے دوران پاکستان کو دہشتگردی کا منبع قرار دینے پر خوب داد دی ،ہندوستان کو بغیر NPTسائن کئے نیو کلیئر سپلائر گروپ(NSG) میں شمولیت دلانے کا بیڑہ اٹھا لیا اور پھر پاکستان کومشورہ دیا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرے۔دوسری طرف مودی نے سعودی عرب،خلیجی ریاستوں ، ایران اور افغانستان کے طوفانی دورے کر کے بظاہر کچھ اقتصادی معاہدے طے کئے۔ہندوستان یہ سب کچھ امریکی سٹریٹیجک پارٹنر کے طور پر کرتا رہا۔ پچھلے چھ ماہ میں مودی نے افغانستان کے 2دورے کئے اور یہ واقعہ اسکے دورے کے چند دن بعد ہی پیش آیا۔
2۔ہمارے اہل قلم اور میڈیانے کافی واویلا کیاکہ ہندوستان ہمیں تنہا کر کے تباہ کرنا چاہتا ہے۔ ہندوستان کی نیّت اور اپنے لوگوں کی حُب الوطنی کے تناظر میں تو یہ خطرہ درست لگا۔مگر دیگر حقائق کو مدِ نظر رکھیں تو معاملہ اسقدر مایوس کن نہ تھا۔ البتہ افغانستان سے ناکام نکلنے والے امریکہ اور بھارت نے مل کر ہمیں ایک دورا ہے پر لاکھڑا کیا ۔ہمیں دو میں سے ایک آپشن کو لینا تھا۔
ا۔پہلا آپشن یہ تھا کہ ہم پہلے کی طرح امریکی کیمپ میں رہیں ۔بالکل پہلے کی طرح ۔ ہزاروں جانوں کا نذرانہ ہم پیش کریں اور ترجیح ہندوستان کی رہے۔ہم مستقبل قریب میں نام نہاد حقانی نیٹ ورک کیخلاف ایک نئی جنگ شروع کردیں جس کے بدلے میں ہمیں کچھ ڈالر کی امداد ملتی رہے ۔انکا سٹریٹیجک پارٹنر ہندوستان ہی رہے اور ہم اس سے بہت نچلے درجے پررہ کر امریکی دوستی کا حق اداکرتے رہیں۔ ہمیں ا س صورت میں یا تو CPECسے توبہ تائب ہونا پڑیگا یا اس میں ہندوستان کو بڑا حصہ دیکر امریکہ کو چین پر برتری حاصل کرنے کی کوشش میں شامل ہونا ہوگا۔ آنیوالی نسلوں کیلئے بھی امریکی اور ہندوستانی محتاجی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
ب۔دوسرا آپشن چین کے ساتھ اتحادی بن کر ہر قیمت پر CPECکی تکمیل ہے جس میں ہمیں چند ڈالر وں کی بجائے ہماری اپنی سر زمین پر ایسے انفراسٹرکچر کا قیام ہے جس میں راہداری کے فائدے سے بڑھکر توانائی کے پراجیکٹ، انڈسٹری ، تجارتی سہولیات کی فراہمی وغیرہ میسر آئیں گی۔اس سے ملک میں بے روزگاری ختم ہوگی اور تجارت بڑھے گی۔یقیناًہماری آئندہ نسلوں کیلئے امریکہ کی ڈکٹیشن اور بھارت کی تخریب کاری بھی بہت حد تک ختم ہوجائیگی۔ خطے کے دیگر ممالک جنکے ذریعے ہمیں تنہائی کا خوف دلایا جاتا ہے خصوصاً افغانستان، ہمارے مرہون منت ہونگے۔ عالمی طاقتیں جس قدر آج بحیرئہ عرب کے ساحلوں پر اپنے اپنے مفادات کے علاقے قائم کرنے کی سعی کررہی ہیں وہ پوزیشن پاکستان مستقل طور پر رکھتا ہوگا۔ہم نے اسی آپشن کو اپنا لیا۔
3۔خطے میں موجود حالات کے تناظر میں ہم پر امریکی دباؤ نظر آتا ہے جو کہ ہمارے ثابت قدم رہنے کی صورت میں وقتی ہوگا۔ البتہ ہندوستان 5/7 سال تک تخریب کاری جاری رکھے گا۔ افغانستان اسکا ایک حد تک آلئہ کاربن سکتا ہے۔ جونہی انہیں ہندوستان کی بے ثباتی کا احساس ہوا، ممکن ہے وہاں پر ایک اور پہاڑ ہندوکش کہلانے لگے۔ روس ہو یا امریکہ ، ہر ایک کیلئے ہمارے ساتھ دشمنی رکھنے کی بجائے اپنا اثر و رسوخ بڑھانا قابل ترجیح ہوگا۔اگر انڈیا نے ایران، افغان، UAE، سعودی عرب وغیرہ سے تعلقات بڑھائے ہیں تو اسکا ہر گز مطلب نہیں کہ وہ ممالک ہمارے دشمن ہوگئے ہیں۔سوا ارب آبادی کے ایک بڑے ملک کے تعلقات کسی سے بھی ہو سکتے ہیں ۔
4۔ان حالات میں پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟
ا۔سب سے پہلے حالات کی سنگینی کو سمجھیں کہ ہمیں افغانستان کے ساتھ ایک نئی جنگ میں الجھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔طورخم کا واقعہ حادثاتی سرحدی جھڑپ بالکل نہیں۔یہ افغان حکومت اور انکے آقاؤں کی پلاننگ سے ہوا ہے۔لہٰذا اس واقع کو جارحانہ انداز میں عالمی سطح پراجاگر کیا جائے۔ افغانی سفارتخانہ الٹا چور کو توال کو ڈانٹے کے مصداق فوراًحرکت میں آگیا۔ تاہم لوکل فورس کمانڈر جنھیں ایسے واقعات کا بدلہ لینے کیلئے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوتی کسی مناسب موقع پر بدلہ چکالیں۔
ب۔قوم کو یکجا اوریک زبان ہونے کی سخت ضرورت ہے۔میں نے ہمیشہ لکھا کہ سب لوگ سیاسی و گروہی مفادات سے بالاتر ہوکر قومی امورپر حکومت کے ہاتھ مضبوط کریں ۔مگر صدافسوس کہ اس موقعہ پر بھی سیاسی لیڈروں کی طرف سے کوئی سخت رویہ سامنے نہیں آیا۔صرف ایک دو لڑ کھڑاتی زبانوں سے چند محتاط الفاظ سنائی دئیے ہیں۔
ج۔گیٹ کو ہر حالت میں تعمیر کیا جائے اور آئندہ دستاویزات کے بغیر کسی کو انٹری نہ دی جائے۔
د۔ طور خم کے راستے تمام ٹریڈ اسوقت رُکی پڑی ہے اسکو اسی طرح بند رکھا جائے جب تک کہ افغانستان کو یہ احساس نہیں ہوجاتاکہ انکی روزی روٹی کیلئے پاکستان انڈیا سے اہم ہے۔یہاں پر یہ بھی خطرہ ہے کہ کہیں ہمارے ہی با اثر تاجر اس کو کھلوانے میں اپنے حربے استعمال نہ کر جائیں۔
ہ۔یہ درست ہے کہ اس بارڈر کو بند نہیں کیا جا سکتا کیونکہ قبائل تقسیم ہیں۔اگر ہماری طرف تین کروڑ پشتون آباد ہیں تودو کروڑ ادھر بھی ہیں۔تاہم بارڈر مینجمنٹ کو شفاف اور موثر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔
و۔افغان مہاجرین کو فوراً واپس بھیجنے کا انتظام کیا جائے۔اسوقت تک انہیں ہر جگہ کھلے پھرنے پر پابندی لگائی جائے۔
ز۔جن ملکوں سے تعلقات کمزور ہوئے ہیں یا بھارت آگے بڑھ گیا ہے ان سے بدکنے کی بجائے قریب کرنے کی کوشش جاری رکھی جائے۔
امریکہ کے ساتھ پہلے کی طرح چلنے کا آپشن لیں تو شائد وقتی طور پر کچھ فوائد حاصل ہوجائیں مگر چین کیساتھ پکا اتحاد ہمارے لئے تاریخ ساز ہوگا۔ صاف ظاہر ہے کہ ہمیں پچھلے کئی خون آلود، تابعداری کے سالوں سے نکل کر اپنی نئی راہیں متعین کرنا آسان تو نہیں ہوگامگر ممکن ضرور ہے۔ جو سمندروں کی تسخیر کیلئے نکلتے ہیں انہیں طوفانوں کا سامنا تو کرنا ہی پڑتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...