طاہر اُلقادری کا ’’بے جوڑ میلا؟‘‘

Jun 17, 2016

اثر چوہان

مرزا غالب ؔنے کہا تھا ؎
’’زباں پہ بارِ خُدایہ، کِس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے، مری زباں کے لئے‘‘
جنابِ آصف زرداری کے دوست اور کرپشن کے کئی مقدمات میں زیر حراست و زیرِ تفتیش سابق وفاقی وزیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین کے ویڈیو بیان نے جنابِ آصف زرداری کے رضاعی بھائی جناب اویس مظفر ٹَپیّ کے نام کو ایک بار پھر ’’نامِ نامی‘‘ بنا دِیا ہے ۔ بقول ایک فلمی شاعر؎
’’کل چودَھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا تیرا‘‘
کی صورت پیدا ہوگئی۔
تو کیوں نہ ہو احترامِ ٹَپیّ ؟
11 مئی 2013ء کے عام انتخابات کے بعد 15 مئی 2013ء کو قومی اخبارات میں چرچا ہُوا تھا کہ ’’اگر صدر زرداری نے اپنے منہ بولے بھائی اویس مظفر ٹَپیّ کو وزیراعلیٰ سندھ بنا یا تو پاکستان پیپلز پارٹی میں بغاوت ہو جائے گی‘‘۔ اِس سے پہلے پیپلز پارٹی سندھ کے ایک لیڈر منظور حسین وساّن نے اپنے ایک خواب کے حوالے سے بتایا تھا کہ ’’اِس بار سّندھ کا وزیراعلیٰ کوئی بوڑھا نہیں بلکہ کوئی نوجوان ہوگا‘‘۔ بعض اصحاب نے وساّن صاحب کے خواب کی یہ تعبیر کی کہ ’’بوڑھے آدمی سے اُن کی مُراد سیّد قائم علی شاہ ہیں اور نوجوان سے جناب اویس مظفر ٹَپیّ‘‘ ۔ 18 مئی 2013ء کو ’’نوائے وقت‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا ’’طلوع ہُوا آفتاب ٹَپیّ!‘‘۔ اِس سے پہلے میری فرمائش پر ’’شاعرِ سیاست‘‘ نے کہا تھا کہ …
’’کیا خوب ہے انتخاب ٹَپّی
وزیراعلیٰ جنابِ ٹَپّی
تھے منتظر اہلِ سندھ جِس کے
طُلوع ہُوا آفتاب ٹَپّی‘‘
مَیں نے لِکھا تھا کہ ’’ہندی زبان میں ٹاپنا اور پنجابی میں ٹپّنا کا مطلب ہے کودنا یا پھاندنا لیکن اویس مظفر صاحب کو ’’ٹَپیّ‘‘ کیوں کہتے ہیں ، مجھے اِس کا عِلم نہیں ہے‘‘۔ میرے کالم پر پیپلز پارٹی کے میڈیا منیجرز نے ابھی تک میری معلومات میں اضافہ نہیں کِیا البتہ ڈاکٹر عاصم حسین نے اپنے ویڈیو بیان میں کہا کہ ’’اویس مظفر ٹَپیّ وزیرِ اعلیٰ سندھ نہ ہوتے ہُوئے بھی وزیراعلیٰ کے اختیارات استعمال کرتے رہے ہیں اور اُنہوں نے ہر قِسم کی کرپشن میں ہاتھ ڈالا‘‘۔ ڈاکٹر عاصم حسین نے یہ بھی بتایا کہ ’’جب مَیں نے جنابِ زرداری صاحب کو یہ بتایا تو اویس مظفر ٹَپیّ نے مجھے دھمکی دی تھی کہ ’’مَیں تمہیں ایسا ٹیکہ لگائوں گا کہ یاد رکھو گے!‘‘۔ ٹَپیّ صاحب نے ڈاکٹر عاصم حسین کو ٹیکہ لگایا یا نہیں؟ ڈاکٹر عاصم حسین نے نہیں بتایا لیکن اُن کے وکیل جناب انور منصور خان کا کہنا ہے کہ ’’ڈاکٹر عاصم حسین کے ویڈیو بیان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے اِس طرح کے بیانات انہیں بدنام کرنے کے لئے دِلوائے جاتے ہیں‘‘۔ اِس سے پتہ چلا کہ ڈاکٹر عاصم حسین کے ’’اصالتاً اور وکالتاً بیان‘‘ میں فرق ہے۔ تبھی تو انور منصور خان اب بھی جناب اویس مظفر ٹَپیّ کا احترام کرتے ہیں ۔اُن کی حمایت میں ’’شاعرِ سیاست‘‘ کہتے ہیں کہ؎
’’کہ جب ہے اُونچا، مقامِ ٹَپّی
تو کیوں نہ ہو احترامِ ٹَپّی‘‘
طاہر اُلقادری کا ’’بے جوڑ میلا ؟‘‘
عجیب اتفاق ہے کہ 17 جون کو سِکھوں کے پانچوں گُرو، گُرو ارجن دیو جی کی شہادت کے دِن ’’جوڑ میلا‘‘ کا تہوار منا کر بھارت اور دُنیا کے دوسرے مُلکوں کے سِکھ یاتری ( زائرین) پاکستان سے واپس چلے گئے اور 17 جون کو ہی لاہور میں ( ادارۂ منہاج القرآن کے شُہدائے ماڈل ٹائون کی یاد میں )علاّمہ طاہر اُلقادری کی قیادت میں اُن کا ’’بے جوڑ میلا‘‘ شروع ہُوا۔ بے جوڑ اِس لئے کہ القادری صاحب کینیڈین شہری ہیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ، پاکستان مسلم لیگ ق کے صدر چودھری شجاعت حسین اور پاکستان عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید احمد سِکّہ بند پاکستانی ۔ اُن کی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں نمائندگی ہے لیکن القادری صاحب کی پاکستان عوامی تحریک کا کوئی ’’موری ممبر‘‘ بھی نہیں ہے ۔
گُرو ارجن دیو جی کی حضرت میاں مِیر صاحب القادری لاہور ی سے دوستی تھی۔ اور اُن کی فرمائش پر ہی حضرت میاں مِیر صاحب نے امرتسر میں سِکھوں کے متبرک مقام ’’ہرمندر‘‘ المعروف گولڈن ٹیمپل کا سنگِ بنیاد رکھا تھا لیکن سِکھوں نے القادری صاحب کو اِس طرح کی زحمت کبھی نہیں دی۔ حضرت میاں مِیر القادری درویش تھے ، سادہ زندگی بسر کرتے تھے اور روحانیت کے بلند مقام پر فائز ہونے کے باوجود اُنہوں نے ’’شیخ اُلاسلام‘‘ کا لقب بھی اختیار نہیں کِیا۔ اُنہوں نے مغل بادشاہ جہانگیر کے دَور میں کوئی مذہبی یا سیاسی تنظیم نہیں بنائی تھی۔ اِس کے برعکس علاّمہ القادری کے ادارہ منہاج اُلقرآن کی دُنیا کے 90 ملکوں میں شاخیں ہیں اور وہ ’’قائدِ انقلاب‘‘ بھی کہلاتے ہیں ۔ موصوف نے میڈیا کے اِس سوال کا کبھی جواب نہیں دِیا کہ ’’آپ کینیڈا میں انقلاب لانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟‘‘
آج (17 جون کو) لاہور میں انقلاب لانے کے لئے علاّمہ القادری کی پاکستان میں انقلاب لانے کی تیسری کوشش ہے۔ اِس کوشش میں 14 جون 2014ء کو منہاج اُلقرآن کے 14 کارکن جان سے گزر گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شُکر ہے کہ القادری صاحب اور اُن کے دونوں بیٹے حسن القادری اور حسین القادری محفوظ رہے۔ جِس طرح جنابِ وزیراعظم کے دونوں بیٹے حسن نواز اور حسین نواز بھی ابھی تک ہر بلا سے محفوظ ہیں ۔ علاّمہ القادری کے کئی سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ ’’علاّمہ صاحب جب بھی انقلاب لانے کے لئے پاکستان تشریف لاتے ہیں تو ’’انقلاب‘‘ کسی دوسرے مُلک کا رُخ کرلیتا ہے‘‘۔ اب القادری صاحب چاہتے ہیں کہ ’’سانحہ ماڈل ٹائون میں اُن کے 14 کارکنوں کی شہادتوں کا ذمہ دار ٹھہرا کر وزیراعظم میاں نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو کسی فوجی عدالت سے سزا دِلوائی جائے۔ لاہور کا بے جوڑ میلا (دھرنا) دراصل آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے نام علاّمہ القادری کی رحم کی ایک اپیل ہے۔ 8 ماہ بعد وطن واپس پہنچنے پر اُنہوں نے کہا کہ ’’آرمی چیف کی مداخلت اور عدالت کے حُکم سے ہی سانحہ ماڈل ٹائون کی ایف آئی آر درج ہُوئی تھی اب اُس کا مقدمہ بھی فوجی عدالت میں چلایا جائے‘‘۔ علاّمہ صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ اُن کی قیادت میں اُن کا دھرنا کب تک جاری رہے گا کیونکہ 29 نومبر 2016ء کو تو جنرل راحیل شریف اپنے منصب سے ریٹائر ہو جائیں گے۔
اِس بار علاّمہ القادری نے ’’انقلاب‘‘ کی بات نہیں کی۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’مَیں نہیں جانتا کہ میرے دھرنے سے وزیراعظم کی حکومت جائے گی یا نہیں؟ لیکن یہ حکومت اپنی موت مر جائے گی‘‘۔ علاّمہ صاحب نے میڈیا کو حکومت کا اپنی موت مرنے کا طریقہ کار بتاتے ہُوئے فرمایا کہ ’’یہ حکومت اپنے پائوں پر خود کلہاڑی مارے گی۔ مَیں اِس کی رُوح کو پرواز کرتے ہُوئے دیکھ رہا ہُوں‘‘۔ ممکن ہے واقعی علاّمہ صاحب نے اپنے باطنی آنکھ سے حکومت کی رُوح کو پرواز کرتے دیکھا ہو لیکن یہ نہیں بتایا کہ حکومت اپنے پائوں پر کلہاڑی کب مارے گی؟ اور یہ بھی کہ وہ اپنے دائیں پائوں پر کلہاڑی مارے گی یا بائیں پائوں پر؟۔ حکومت اور علاّمہ القادری کے فلسفۂ کُلہاڑی اور رُوح کی ترجمانی کرتے ہُوئے ’’شاعرِ سیاست‘‘ نے کہا؎
’’مَیں نہیں کہتا کہ ہے بھٹکی ہُوئی
رُوح اُس کے پائوں میں اٹکی ہُوئی‘‘

مزیدخبریں