disbale کون؟

انہوں نے انتہائی پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک پرانی طرز کا اٹیچی کھو ل ۔ میں نے حیرانگی سے انہیں دیکھا، اور اتنی ہی دیر میں انہوں نے اپنے دو بیٹوں اور دو بہوﺅں کی مدد سے بے شمار میڈلز، ٹرافیاں اور سر ٹیفکٹ نکال کر انٹرویو کی میز پر سجانے شروع کر دئیے۔ آپ پلیز یہ سب کیمرہ مین سے کہیں فوکس کر کے دکھا دیں۔ یہ سب میری عمر بھر کی محنت ہے۔ یہ ایک جسمانی معذور کینڈین پاکستانی کے جیتے ہو ئے انعامات تھے۔ مسعود عالم صاحب نے جب مجھے محمد علی رفیق کی ایک خبر کا لنک بھیجا تو میں نے سرسری طور پر یہی دیکھا کہ کوئی کینیڈین پاکستانی ہے جس نے کینڈا میں ہو نے والے بیڈ منٹن کے میچز میں ڈبل میں دو سلور اور سنگل میں ایک بر ونز جیتا ہے۔ مگر پہلی نظر میں یہ دیکھنا بھول گئی کہ خبر میں صرف بیڈ منٹن نہیں بلکہ پیرا بیڈ منٹن لکھا ہوا تھا ۔ یعنی معذور لوگوں کی گیم۔میں نے جب محمد علی رفیق عرف بابو جی کو اپنے سامنے بھاگتے دوڑتے دیکھا تو، میں نے بالاخر پو چھ ہی لیا کہ آپکی معذوری ہے کیا،مجھے تو کچھ نظر نہیں آرہا ؟ تب انہوں نے بتایا کہ جب وہ اٹھارہ مہینے کے تھے تب انکی بائیں ٹانگ پولیو کی وجہ سے کمزور ہو گئی تھی ۔ کمزور ٹانگ کے ساتھ آپ چلنا ہی سیکھ لیتے تو بہت کارنامہ ہو تا،آپ نے تو بھاگ دوڑ مچا دی۔ میں نے حسب ِ عادت فقرہ چست کر دیا۔
میری بات سن کر وہ مسکرائے، مگر گالوں پر نمکین پانی پھیل گیا۔ اُن بہتے آنسوﺅں کو انہوں نے صاف نہیں کیا، اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ بہت باغیرت اور ہمت والے انسان ہیں کیونکہ جو لوگ اپنے آنسو چھپانا چاہتے ہیں، انکے آنسو اگر غلطی سے بہہ نکلیں تو وہ انہیں صاف کر نے سے کتراتے ہیں کہ بے رنگ آنسوﺅں کی نسبت اس عمل میں دیکھے جانے کا چانس ذرا زیادہ ہو تا ہے۔ وہ بو لتے گئے :
"جب لڑکے مجھے پیچھے دھکیل کر آگے نکل جا تے تھے، جب گھر میں بھائی بھی بچارہ سمجھ کر بس بیٹھ جانے کا مشورہ دیتے تھے اور ٹیچرز بھی گیم پیریڈ میں مجھے کلاس میں جا کر آرام کر نے کا مشورہ دیتے تھے، تو اس سے میری کمزوری میرے اندر ایک پھوڑا بن کر دکھنے لگتی تھی۔ اور میں اکیلا پن محسوس کر تا۔ میرا کوئی دوست نہ بنتا تھا، کلاس 9 میں ایک دوست بنا۔ جسمانی محرومی سے زیادہ میں پیار کا بھوکا تھا، مگر ایک دن جب اسی دوست نے مجھ سے بھاری رقم مانگی جو میں نہ دے سکا تو اس نے مجھے کہا میں تم جیسے معذور کو وقت دیتا رہا ہوں تم مجھے پیسے بھی نہیں دے سکتے۔ اس دن میرا دل ٹوٹ گیا اور میں نے زندگی بھر کھبی دوست نہ بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ گو بعد میں زندگی میں دوست نما اساتذہ بھی ملے اور دوست بھی مگر لڑکپن کا وہ زخم دل میں خوف سا بن کے عمر بھر بیٹھا ہی رہا۔ پھر سائیکل اور موٹر بائک پر کپڑے کا بز نس شروع کیا ۔ وہاں بھی میرے "خاص جوتے" کی وجہ سے جو میں دکانوں کے باہر اتار نہیں سکتا تھا، مشکل بنی۔ پھر ایک عید کا دن تھا، میں سارا دن گھر پر تنہا تھا۔ ماں اور بھائی سب باہر گئے ہو ئے تھے ۔ میں بھوکا بیٹھا رہا۔ مگر جب اس رات کی صبح ہو ئی تو سورج صرف آسمان پر نہیں میرے اندر بھی طلوع ہوا۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ اس معذوری کو شکست دوں گا۔ میں نے فزیو تھراپی سیکھی اور اپنی تھراپی خود ہی کر نے لگا۔ میں 10 کلومیٹر روزانہ بھاگتا، مشقیں کرتا اور پھر میں نے جوڈو کرا ٹے سیکھنے شروع کئے۔ کمزور ٹانگ کو ایک خاص پو زیشن پر ایڈجسٹ کر کے جب میں نارمل ٹانگ سے کک مارتا تو اسکی مضبوطی اور سختی مدمقابل کو ششدر کر دیتی، میں نے اس میں بھی بہت سے ایوارڈ جیتے۔ پھر میں نے پاور لفٹنگ اور یوگا بھی شروع کر دیا۔ اسکے بعد میں نے بیڈمنٹن کی طرف دھیان دینا شروع کیا، اور بہت سے نیشنل، انٹرنیشل مقابلوں میں حصہ لیا اور پاکستان کا نام روشن کیا شومئی قسمت اسی دوران میرا ایک اور حادثہ ہو گیا جس میں میری 14پسلیاں اور ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ میں نے سوچا خدا بھی میری ہمت کو توڑنے کا ارادہ باندھے بیٹھا ہے، مگر میں پھرحالات سے ٹکرا گیا۔ اپنے آپ کو پھر سے کھڑا کیا، مگر پھر ملائیشیا میں ٹریننگ کے دوران میرا ایک گھٹنا بھی ٹو ٹ گیا۔ مگر روبینہ جی جو اس دن کا سورج میرے اندر اُگا تھا، وہ ان سب اندھیروں سے بہت زیادہ روشن تھا۔ اسکی روشنی نے مجھے مایوس ہی نہیں ہو نے دیا۔ میں نے لوگوں کی اس نفرت کو، ہمدردی کو ، حقارت کو محبت اور فخر میں بدل دیا۔ میں نے اپنی کمزوری کا ڈھنڈوارا پیٹ کر لوگوں کی ہمدردی اور پیار نہیں بٹورا بلکہ اپنی محنت سے ، مقام اور نام بنا کر یہ محبت اور عزت حاصل کی ہے۔" بابو جی نے انسان کی عزت اور غیرت کو ترجیع دی، اسی لئے انہوں نے اپنے جیسے جسمانی معذوروں کو معذوری کے باوجود سر اٹھا کر جینے میں انفرادی سطح پر مدد کی، انکی فلاح کیلئے تنظیم ایسے بنائی کہ وہ خیرات پر نہیں بلکہ خود پر انحصار کریں۔
کینیڈا کی تاریخ میں ہو نیوالے پہلے پیرا بیڈمنٹن میں پاکستان کا نام روشن کر نیوالے یہ جواں دل اتھلیٹ ہم سب کیلئے یوں قابل ِ احترام ہے کہ انہوں نے قدرت کی طرف سے آئی ہو ئی کمزوری کو قسمت کا لکھا سمجھ کر رو دھو کر ، خود پر ترس کھا کر قبول نہیں کر لیا۔
محمد علی رفیق جیسے کتنے ہی بچے پاکستان میں آج بھی پولیو کی وجہ سے معذوری کی زندگی گزار رہے ہیں اور کتنوں میں تقدیر بدلنے کی بابو جیسی ہمت ہو گی؟
ان معذور حکمرانوں کی اصلاح کے لئے کوئی ادارہ بن جائے تو پاکستان میں شائد نہ کو ئی معذوری اور نہ کوئی معذور باقی رہے ۔

ای پیپر دی نیشن