اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) اٹارنی جنرل نے جے آئی ٹی کے الزامات کا جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا‘ اٹارنی جنرل نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ جے آئی ٹی وزیراعظم ہائوس کے فون ٹیپ کر رہی ہے۔ وزیراعظم کے سمن لیک ہونے کا ذمہ دار جے آئی ٹی کا عملہ ہے۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نیجے آئی ٹی کی جانب سے درپیش مشکلات، الزامات، بعض قومی اداروں کے عدم تعاون پر مبنی دائر درخواست پر حکومتی موقف پر مبنی جواب میں ایف بی آر، ایس ای سی پی، نیب، وزارت قانون،آئی بی اور وزیراعظم ہائوس کا موقف بھی شامل ہے۔ جمعہ کو جمع کرائے گئے جوابات میں قومی اداروں کی طرف سے جے آئی ٹی کے الزامات کو یکسر مسترد کردیا ہے، سکیورٹی ایکسچینج کمشن کے چیئرمین نے جے آئی ٹی کے الزامات کومسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ ریکارڈ کے مطابق چوہدری شوگر ملز کیخلاف تحقیقات 2013ء میں بند کی گئی تھیں، اس لئے ریکارڈ میں ٹمپرنگ سے متعلق ادارے پر الزام سراسر غلط اور بے بنیاد ہے یہ تحقیقات موجودہ چیئرمین کے دور سے پہلے ہی بند کی گئی ہیں جبکہ ادارے کی جانب سے ممبرکی نامزدگی کا معاملہ جے آئی ٹی کی تشکیل سے پہلے سامنے آیا تھا جس کو کام میں روڑے اٹکانے کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ علی عزیز کی تعیناتی کسی بھی واٹس ایپ کال پرنہیں ہوئی، نیب نے جے آئی ٹی کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے اس الزام کومسترد کردیا کہ جے آئی ٹی کے ایک ممبرکو بدنیتی کی بنیاد پر شوکاز نوٹس جاری کیا گیا نیب کے مطابق مسٹر منگی کو شوکاز نوٹس عدالت کے حکم پر جاری کیا گیا اور ان کے ہمراہ دیگر77 افراد کو بھی نوٹس جاری کئے گئے ہیں، ایف بی آر نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ جے آئی ٹی نے پہلی مرتبہ 8 مئی کوریکارڈ دینے کی درخواست کی تھی بعد ازاں مزید ریکارڈ کیلئے بالترتیب 25 مئی ،29 مئی اور8 جون کوریکارڈ مانگا ، یہ سارا 40سال پرانا ریکارڈ مختلف افراد سے متعلق تھا، جو ہرممکن حد تک کم سے کم وقت میں اسے فراہم کردیا گیا تھا ، وزارت قانون وانصاف نے اپنے حوالے سے جے آئی ٹی کے لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ جے آئی ٹی کی جانب سے قانونی معاونت سے متعلق خط کاجواب تین روز میں جاری کردیا گیا تھا اور دستاویز سے ثابت ہوتا ہے کہ جے آئی ٹی کے ممبران ضروری خط وکتابت کے بارے میں متعینہ ان رولز اور بزنس سے پوری طرح آگاہ تھے کہ اس طرح کی خط وکتابت کے ذمہ دار دفتر خارجہ اور وزارت داخلہ ہوتی ہے، انٹیلی جنس بیورو نے جے آئی ٹی ممبر بلال رسول اور ان کے اہل خانہ یاکسی اور کے فیس بک اکائونٹ ہیک کرنے کے الزامات کو مسترد کر تے ہوئے واضح کیا ہے کہ جے آئی ٹی کے کسی ممبر کے فیس بک اکائونٹ کو ہیک نہیں کیا گیا، وزیراعظم ہائوس نے اپنے جواب میں جی آئی ٹی کی طرف سے بلائے گئے افراد/ گواہان پردبائو ڈالنے اور ڈکٹیٹ کرنے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہاکہ ایسا ہے تو جے آئی ٹی ٹھوس ثبوت پیش کرے اور اگر ضرورت ہوئی تو متعلقہ افراد اپنا جواب بھی داخل کرائیں گے، جواب میں موقف اپنایا گیا ہے کہ جے آئی ٹی نے اپنی درخواست میں خود فون ٹیپ اور گواہان کی مانیٹرنگ کا اعتراف کیا ہے‘ حالانکہ فون ٹیپ کرنا اور گواہوں کی مانیٹرنگ قانون کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ وزیراعظم ہائوس نے سمن لیکس کے الزام کو بھی مسترد کر دیا اور کہا کہ سمن جے آئی ٹی نے جاری کیا اور جے آئی ٹی کے عملے نے ہی اسے لیک کیا ہے تاہم اس طرح کے سمن عوام کے علم میں ہوتے ہیں جس کے لیک ہونے سے تحقیقات کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آتی، جواب میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کے بعض ممبران پر متعصب ہونے کے الزامات لگائے گئے ہیں جبکہ جے آئی ٹی نے بھی بعض اداروں اور افراد پر انصاف کی راہ میں رکاوٹیں ڈ النے جیسے سنگین الزامات لگائے ہیں تاہم تمام اداروں نے ان الزامات کو مسترد کردیا ہے اور اس حوالے سے جے آئی ٹی کی درخواست پر دوسروں کو سنے اور شواہد ریکارڈ کئے بغیر فیصلہ نہیں جاسکتا، جس معاملے کی شکایت کی گئی ہے اسے جے آئی ٹی کے حتمی رپورٹ کے ساتھ دیکھا جائے جو مقررہ وقت میں مکمل کرکے عدالت کو پیش کی جائے گی اٹارنی جنرل نے جواب میں نہال ہاشمی کی تقریر کے بارے میں واضح کیا ہے کہ اس ضمن میں وزیراعظم نے اس امر کا فوری نوٹس لیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس معاملے میں بدنیتی کا کوئی عنصر شامل نہیں، نہال ہاشمی کی پارٹی رکنیت ختم کرنے کے ساتھ ان کیخلاف ایف آئی آر بھی درج کردی گئی ہے، جبکہ اٹارنی جنرل کی جانب سے جواب میں کہا گیا ہے کہ بظاہر جے آئی ٹی نے مواد اکٹھا کرنے میں وقت اور توانائی صرف کی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جے آئی ٹی، ٹی وی ٹاک شوز دیکھنے، آرٹیکل پڑھنے اور سوشل میڈیا کی مانیٹرنگ میں اپنا وقت صرف کر رہی ہے اٹارنی جنرل نے اپنے جواب میں عدالت کویقین دلایاہے کہ وہ پانامہ کیس کے فیصلے پرعملدرآمد بنچ کے احکامات پرفوری عمل کیا جائے تاکہ مقررہ مدت میں ایک شفاف اورغیرجانبدارانہ انکوائری کی تکمیل یقینی بنائی جاسکے، اس لئے عدالت سے استدعاہے کہ جے آئی ٹی کے لگائے گئے الزامات اور اس کو درپیش مشکلات کی روشنی میں مناسب حکم جاری کیا جائے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ حکومتی اداروں کی طرف سے جمع کرائے گئے جواب میں عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ جے آئی ٹی کو شفافیت اور فیئر پلے کا حکم دے۔
جے آئی ٹی الزامات کا ثبوت دے‘ شفافیت کا حکم دیا جائے‘ اٹارنی جنرل نے وزیراعظم ہائوس اور اداروں کا جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا
Jun 17, 2017