12مئی2017 کو وزیر اعظم نواز شریف اور 27دیگرممالک کے سربراہان ایک پٹی ایک روڈ (One Belt One Road) منصوبے کے تحت منعقد ہونے والے عالمی فورم میں شرکت کیلئے بیجنگ پہنچے ۔ رابطہ سازی اور تعاون کے ذریعے خوشحالی (prosperity through connectivity and cooperation)کا نعرہ بلند کرتے ہوئے چین عالمی تجارت کا سُر خیل بننے کیلئے اپنے منصوبے کو نافذ کرنے جا رہا ہے ۔ جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے اوبور منصوبہ افتتاحی مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔سقراط کے قول' نیک آغاز انجام بخیرکے مصداق چینی حکومت کا اوبور (One Belt One Road)کی حمائیت و سرپرستی کرنا دراصل پاکستان میں ابتدائی مراحل میں داخل ہونے والے سی پیک منصوبے کی کامیابی کا اعلان کرنے کے مترادف ہے۔یہ نہ صرف ایک حوصلہ مند اقدام ہے بلکہ یہ دونوں فریقوں کے مابین پائے جانے والے گہرے اعتماد کا پرتو لئے ہوئے نظر آتا ہے۔ دانشمندانہ بات ہو گی کہ اوبور اور سی پیک کے مقاصد اور امکانات کو ایک دوسرے سے الگ رکھا اور سمجھاجائے۔سی پیک اوبور کا ایک اہم پہلو ہے لیکن اگر اس کو بڑے تناظر میں دیکھا جائے تو اوبوردراصل ورلڈ آرڈر کی تبدیلی کیلئے چین کی عظیم جیو پالیٹیکل سٹریٹجی کا عکاّس ہے، عظیم امنگوں کاحامل ایک ایسا منصوبہ جس کے تحت چین کے لوگ یورپ، ایشیااور افریقہ سے نہ صرف زمینی بلکہ سمندری راستے سے بھی منسلک ہو جائینگے۔ اس کا بنیادی مقصد دنیا کی تجارت و کامرس کے بڑے حصے پر غلبہ حاصل کرنا ہے۔جبکہ اس کا دوسرا مقصد نئے ترقی پانے والے زمینی اورسمندری راستوں پر چینی مصنوعات کی برآمدات کے سیلاب کو رسائی دینا ہے۔ اس عظیم منصوبے کا تیسرا مقصد چین کی پھیلتی ہوئی بڑی معیشت کیلئے ہر حال میں اور بتدریج سستے تیل اور گیس کے امکانات کے حصول کو ممکن بنانا ہے ۔یہ چہار جانب مکمل ہونے والے مندرجہ ذیل چھ روٹ ہیں جو وقت کے ساتھ ایک دوسرے سے منسلک ہو جائیں گے :
1۔ چائنہ --پاکستان کوریڈور، جو جنوب مغربی چین سے پاکستان تک پھیلا ہوا ہے۔2 ۔چین --منگولیا--روس کوریڈورجو شمالی چین سے مشرقی روس تک پھیلا ہوا ہے۔3۔چین --وسط ایشیائ--مغربی ایشیاء کوریڈورجو مغربی چین سے ترکی تک پھیلا ہوا ہے۔4۔چین--جزیرہ نما انڈو چائنہ کوریڈورجو جنوبی چین سے سنگا پور تک پھیلا ہوا ہے۔5۔نیو یوریشین لینڈ بریج ، جو مغربی چین سے مغربی روس تک پھیلی ہوئی ہے6۔ میری ٹائم سلک روڈ، جو سنگاپور کے چائنیز کوسٹ سے بحیرہ روم تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ تمام منصوبے مل کر اوبور کے تصور کو مکمل عملی جامہ پہناتے ہیں۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سی پیک ایک اہم پراجیکٹ اور اوبور جیسی ایک عظیم کاروباری مہم یا انٹرپرائز کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ اس پورے منصو بے سے تقریبا ساٹھ ممالک چین سے منسلک ہو جائیں گے اور ان ممالک کا زیادہ تر چین کی اشیاء اور سروس پر انحصار ہو گا۔ اس بھروسے کے بدلے چین ان علاقوں میں ڈویلپمنٹ انفراسٹرکچر ، تجارت ، کامرس اور دوطرفہ فائدے پر مبنی تعلقات کو فروغ دے گا۔ اکتوبر 2013 میں شی جن پنگ کے ہاتھوں باقائدہ آغاز کے بعد سے چین کے تمام معاشی ماہرین متفقہ طور پر اس منصوبے کی حمائیت اور تعریف کر رہے ہیں۔ اوبور کے سی پیک حصے میں گوادر کو دو چند اور مرکزی اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ بہ یک وقت سمندری اور زمینی سلک روٹ سے منسلک ہے۔ اس منصوبے کی بدولت چینی برآمدات کو گرم پانیوں تک پہنچنے کیلئے اب بارہ ہزار کلومیٹر کازائد سفر نہیں کرنا پڑے گا۔چین باقی تمام پانچوں زیر تعمیر روٹس سے بھی یہی مسابقتی فائدہ حاصل کرنے کا متمنی ہے۔ یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب چین کے جی ڈی پی میں پچھلے دس اہم سالوں میں ڈبل ڈیجٹ بڑھوتری کے بعد اس کی معیشت کا گراف نیچا آنے لگا ہے۔ قومی اورادارہ جاتی نظریہ سے ترقی اور پختگی کی ایک خاص جہت پر پہنچ کر انتہائی ترقی کا یہ گراف یا تو نیچے چلا جاتا ہے یا نئی جدتوں اور بروقت تنظیم نو کے نتیجے میں دوبارہ زور پکڑتا ہے۔ اوبور ایک ایسی ہی تشکیل نو اور تجدد کا دوسرا نام ہے۔ سی پیک اور اوبور نہ صرف تجارت اور کامرس میں بلکہ سماجی و سیاسی گہرائیوں کے تناظر میں بھی ایک دوسرے کے مرہون منت ہیں۔ پاکستان مشترکہ بارڈر والے چین کا دیر پا اتحادی ہے۔ پاکستانی فوج شدت پسنداور عسکری تنظیموں سے شدید اور چومُکھی جنگ لڑ رہی ہے جن کے تانے بانے مبینہ طور پر جارح ہمسایہ ملک ہندوستان سے ملتے ہیں ۔ حقیقت پسندانہ نقطہ نظر سے لمحوںکی بات ہے کہ دہشت گردی کی یہ آگ پاکستانی بارڈر کے پار چین کے مسلم اکثریتی علاقوں تک پھیل جائے۔ انڈیا جو کہ خطے میں برابر کا معاشی مد مقابل ہے چین کی تعمیر و ترقی میں خلل سے یقینی طور پر فائدہ اٹھا سکتا ہے۔اس لئے سی پیک نہ صرف سیاسی بلکہ معاشی مقاصد کا حامل منصوبہ ہے۔ ایک ترقی یافتہ اور مستحکم پاکستان تشدد اور عسکریت پسند تنظیموں کے پھیلاؤ کے راستے میں ڈھال بن جائیگا۔ ایک کمیونسٹ ریاست جہاں ہر طرح کے مذہبی خیالات کے پھیلاؤ کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے وہاں انارکی کو فروغ دینا قدرے آسان کام ہو گا۔ ایک مضبوط حکومت کی موجودگی سے پاکستان کسی بھی طرح کے بیرونی خطر ے اور مداخلت کو خطے میں روک سکے گا خواہ یہ مداخلت افغانسان میں امریکی کنٹرول سے آ رہی ہو یا ہندوستانی راہنمائی میں ہونے والے جاسوس مشنوں(covert operations) کے ذریعے ہو رہی ہو۔ دوسری طرف پاکستان میں صنعتی اور کمرشل کامیابیوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ناکافی انفراسٹرکچر اور بجلی کی قلت رہی ہے۔ سی پیک کی بدولت ان دونوں مشکلات سے نجات مل جائے گی اورنتیجتاً کئی دہائیوں سے پاکستانی معیشت کے فروغ میں پڑنے والی رکاوٹیں دور ہوں گی۔ اس سے ہمیں واشنگٹن کے زیر اثر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے شکنجے سے نکلنے میں آسانی ہو گی اور حقیقی معنوں میں ہماری قوم کو سفارتی و معاشی آزادیاں نصیب ہوں گی ۔
اوبور کا ایک اور اثر انداز ہونے والا پہلو اُس فورم میں ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر موجودگی اور پیوٹن کی موجودگی تھی۔ اس وقت تنہائی اور تحفظ کی سیاست (politics of isolation and protectionism)مغربی ممالک کے اعصاب پر چھائی ہوئی ہے۔ جہاں ایک طرف برطانیہ نے یورپی یونین سے اپنے راستے جدا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو دوسری طرف یونائیٹڈ اسٹیٹس نے سب سے پہلے امریکہ کا نعرہ لگا دیا ہے اور ساتھ ہی ناٹو(NATO)جیسی تنظیم کو فرسودہ قرار دے دیا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے پل کی بجائے دیوار تعمیر کرنے کی پالیسی و مہم جوئی نے اوبور کی اہمیت میں غیر اختیاری طور پرمزید اضافہ کر دیا ہے۔حتمی طور پر امریکہ کی اب وہ ساکھ نہیں رہی جو اسے قائدانہ کردار کا رتبہ عطا کرتی تھی۔