عالمی برداری کی کہہ مکرنیاں اور نوائے وقت!

Jun 17, 2019

اصغر علی شاد

وزیر اعظم عمران خان اور نریندر مودی کی بشکیک میں رسمی سی علیک سلیک کے حوالے سے ہندوستانی پریس میں بہت کچھ چھپا ہے اور اکثر دانشوروں نے توقع ظاہر کی ہے کہ آنے والے دنوں میں جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن کا قیام شاید عملی شکل اختیار کرے اگر بھارتی حکمران اپنی دیرینہ ہٹ دھرمی کو ترک کر دیں ۔ اسی پس منظر میں ہندوستان سے کثیر الاشاعت انگریزی روزنامے انڈین ایکسپریس کی 25 اپریل 2005 کی اشاعت میں ممتاز بھارتی دانشور ’’ سعید نقوی‘‘ نے اپنے کالم بعنوان ’’ Musharraf as new Ataturk ‘‘ میں لکھا تھا ہے کہ مجھے پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے کسی بھی معاملے میں اگر کسی نتیجے پر پہنچنا ہوتا ہے تو میں اکثر اوقات ’’اندر کمار گجرال‘‘ (سابق بھارتی وزیراعظم) کے پاس جاتا ہوں اور وہ مجھے ’’نوائے وقت‘‘ کا تازہ ترین اداریہ اپنے کمپیوٹر سے نکال کر دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے مطالعے سے تمہیں اندازہ ہو جائے گا کہ پاکستان کی حقیقی اسٹبلشمنٹ کی سوچ میں کوئی تبدیلی رونما ہوئی ہے یا نہیں۔ ہندوستان کے ایک سابق وزیراعظم کی جانب سے اس قسم کے اعتراف نما انکشاف میں یقینا بہت کچھ پنہاں ہے جسے جملہ معترضہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے ۔ یاد رہے کہ اندر کمار گجرال اپریل 1997 سے مارچ 1998 تک بھارت کے 12 ویں وزیر اعظم رہے ، ان کا 30 نومبر 2012 کو انتقال ہوا۔ جبکہ سعید غنی بھارت کے چوٹی کے صحافی ہیں جن کی تحریریں واشنگٹن پوسٹ اور بی بی سی سمیت نمایاں عالمی اخبارات و جرائد میں چھپتی رہتی ہیں۔
بہرکیف بھارتی حکمران اٹھتے بیٹھے یہ راگ الاپتے ہیں کہ بھارت نہ صرف دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے بلکہ وہاں انسانی حقوق کے احترام کے حوالے سے صورتحال بھی بڑی حد تک مثالی ہے۔ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ وطن عزیز پاکستان کے چند حلقوں کیساتھ ساتھ عالمی برادری کا کچھ حصہ بھی اس بھارتی پراپیگنڈے سے خاصا متاثر ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے کئی اعتدال پسند دانشوروں نے کہا ہے کہ بھارت میں اچھوت ہندوئوں کیخلاف دہلی کے تمام بالادست ہندو طبقات جس بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف وزریوں کا ارتکاب کر رہے ہیں، وہ اگرچہ کوئی نئی بات نہیں تاہم یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ عالمی برادری اور اقوام متحدہ اس جانب خاطر خواہ توجہ مرکوز نہیں کر رہے۔ اس پس منظر میں کثیر الاشاعت ہندی روزنامے ’’راجستھان پتریکا‘‘ نے ایک نیوز سٹوری شائع کی جس کے مطابق اونچی ذات کے ہندوئوں نے چند روز قبل بانس واڑہ، قصبے میں ایک 38 سالہ اچھوت ہندو خاتون کیساتھ غیر انسانی بلکہ مکروہ رویہ اپنائے ہوئے اسے غلاظت کھانے اور پینے پر مجبور کیا گیا۔
سبھی جانتے ہیں کہ بھارت میں ایسے واقعات روز مرہ کا معمول ہیں ، جو بھارتی حکمرانوں اور سول سوسائٹی کے لمحہ فکریہ ہونے چاہئیں اور یہ صورتحال انسانی حقوق کے عالمی چیمپئنز کیلئے بھی ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہندوستان میں اچھوت ہندئوں کیساتھ ایسا غیر انسانی بلکہ شیطانی طرز عمل بظاہر معمول کی بات ہے اور اس میں حیران ہونیوالی کوئی بات نہیں، مگر انسان دوست مبصرین نے اس امر پر افسوس اور تعجب کا اظہار کیا ہے کہ پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے اس گھنائونے جرم کے مرتکب افراد کیخلاف کوئی کاروائی نہیں کی اور یہ بات بھارتی حکمرانوں کیلئے ہی نہ صرف باعث شرم ہے بلکہ ایسے واقعات سے بین الاقوامی رائے عامہ کی آنکھیں بھی کھل جانی چاہئیں اور سے دہلی سرکار کے سیکولر ازم اور جمہوریت کے دعوئوں کی اصلیت سے بخوبی آگاہ ہونا چاہیے۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے کئی بھارتی صحافیوں نے کہا ہے کہ بظاہر دنیا بھر میں اکیسویں صدی کے آغاز پر کہا جا رہا تھا کہ انسانی تہذیب و تمدن، ترقی اور شائستگی کی انتہائی حدوں کو چھو رہا ہے، ٹیکنالوجی اور میڈیا کی ترقی کے سبب دنیا ایک ’’گلوبل ولیج‘‘ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ایسے میں کسی گروہ یا ملک کیلئے ممکن ہی نہیں رہا کہ وہ بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو سکے اور اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈال پائے۔
مگر اس بابت اگر بھارت کے احوال پر نظر ڈالی جائے تو ہر باشعور انسان کا سر مارے ندامت کے جھک جاتا ہے کیونکہ ہندوستان میں اپنے ہی ہم مذہب نیچی ذات کے ہندوئوں کے خلاف جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جا رہا ہے، اس بدقسمت گروہ کو اونچی ذات کے ہندوئوں کے مندروں میں پوجا تک کی اجازت بھی نہیں، اگر کوئی بھولا بھٹکا اچھوت سورن جاتی کے مندروں میں داخل ہو جائے تو اسے جان سے مار دیا جاتا ہے کیونکہ اونچی ذات کے ہندوئوں کے خیال میں ایسا کرنے سے ان کا مندر اور بھگوان بھرشٹ اور ناپاک ہو جاتا ہے … اچھوت ہندو اگر کسی برتن کو چھو لے تو اس کا وہ حشر کیا جاتا ہے جس کا تصور بھی کوئی نارمل انسانی معاشرہ نہیں کر سکتا۔ ماہرین کی رائے ہے کہ جس معاشرے میں اپنے ہی ہم مذہبوں کیساتھ یہ برتائو کیا جاتا ہے وہاں دوسری مذہبی اقلیتوں کی حالت زار کیا ہو گی۔ اس کا اندازہ کرنا شائد زیادہ مشکل بات نہیں، مگر اس سب کے باوجود حیرانی کی بات ہے کہ عالمی برادری کے موثر حلقے مکمل چشم پوشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے سطحی مفادات کی خاطر بھار ت کو سب اچھا ہے کا سرٹیفیکیٹ دیتے ہوئے ذرا بھی تاخیر کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
یہ بات توجہ طلب ہے کہ عالمی برادری کو اس امر کا احساس کرنا چاہیے کہ انسانی حقوق کی پامالیوں کے ضمن میں محض BJP کی روش ہی قابل مذمت نہیں بلکہ کانگرس کا ریکارڈ بھی کسی طرح قابل رشک نہیں۔ بلکہ اکثر بھارتی رہنما اور سیاسی جماعتیں کھلے عام مذہبی رواداری اور اعتدال پسندی کی کٹر مخالف ہیں، یہی وجہ ہے کہ بھارت کی آزادی کے بعد سے وہاں ہزاروں بار اقلیت کش فسادات ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب اس حوالے سے پاکستان اعتدال پسندی کی جیتی جاگتی مثال ہے، بھارتی حکمرانوں کو بھی سمجھنا چاہیے کہ کسی ایک آدھ اقلیتی فرد کو کسی اعلیٰ نمائشی عہدے پر فائز کر دینا ہی سیکولرازم نہیں، بلکہ یہ اجتماعی رویوں کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ عالمی برداری اس ضمن میں بھارت اور پاکستان کو ایک پلڑے میں نہیں تولے گی بلکہ بھارت میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے قابل مذمت سلسلے کو بند کرانے میں اپنا موثر کردار ادا کرے گی ۔
عالمی برادری کے ایک بڑے حلقے کے دہرے معیار کی اس سے بڑی مثال کیا ہو گی کہ گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کی نسل کشی کے بعد 2005 میں نریندر مودی کو امریکی ویزہ دینے پر بھی پابندی تھی، مگر اب وہی نریندر مودی عالمی برادری کی آنکھوں کا تارہ بنے ہوئے ہیں۔

مزیدخبریں