رازی کی موت ایک راز ہے۔ یہ راز ہمیشہ راز رہے گا۔ اب موٹروے پولیس بھی جی ٹی روڈ پولیس کی طرح ہوتی جاتی ہے۔ موٹروے عام روڈز سے مختلف محفو ظ اور آرام دہ ہے مگر ابھی تک جی ٹی روڈ کے مقابلے میں ٹریفک ہمیں موٹر وے پر دکھائی نہیں دیتی۔
اتنی بڑی سڑک پر ایک ویرانی ہے مگر اس میں حیرانی کے کوئی چانس نہیں ہیں۔ لگتا ہے کہ ایک اکیلا پن موٹروے کا ہمسفر ہے۔ سڑک کے ساتھ درخت، سبزہ اور گل و گلزار کم ہے۔ درخت بھی بہت کم ہیں تو پرندے بھی نہیں۔ کہیں پہ چہکار سنائی نہیں دیتی۔ دوران سفر گاڑی خراب ہو جائے تو قسمت ہی خراب ہو جاتی ہے۔ کوئی مکینک تو کہیں دور دور نظر نہیں آتا۔ ڈرائیور صاحب خود ہی مکینک کا کام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ میں نے ڈرائیور کے ساتھ صاحب اس لیے لکھا ہے کہ صاحب لوگ موٹروے پر خود ہی ڈرائیو کرتے ہیں۔ کبھی کبھی کوئی صاحبہ بھی ڈرائیور سیٹ پر ہوتی ہے تو پریشانی ہوتی ہے کہ انہوں نے ڈرائیور کو ساتھ والی سیٹ پر بٹھایا ہوتا ہے۔ یہ ڈرائیور صاحبان بہت آسانی سے ساتھ والی عورت کو اغوا کر لیتے ہیں۔
رازی صاحب بیورو کریسی سے بہت روابط رکھتے تھے ان کے کام آتے تھے اور ان سے اپنا کام بھی کرواتے تھے۔ میں نے جب بیوروکریسی کے لیے بُرا کریسی کا لفظ استعمال کیا تو رازی صاحب نے میرے ساتھ اتفاق کیا۔ وہ ایک پسماندہ اور لاہور سے دور کسی بستی سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے ایک جونیئر رپورٹر کی حیثیت سے نوائے وقت سے اپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز کیا اور پروفیشنل رپورٹنگ کے لیے اتنے ایوارڈ حاصل کئے کہ اتنا ریوارڈ بھی بے چارے صحافیوں کو نہیں ملتا۔
فیصل آباد کسی فنکشن یا شادی میں شرکت کے بعد رحمت علی رازی لاہور آ رہے تھے۔ گاڑی اُن کا بیٹا ڈرائیو کر رہا تھا۔ رازی کی طبیعت خراب ہوئی۔ اُلٹیاں آئیں، بیٹے نے گاڑی تیز چلائی کہ لاہور میں کسی ڈاکٹر تک پہنچ سکیں۔ تیز رفتاری نے رازی کو نقصان پہنچایا۔
موٹروے پولیس نے اپنی ’’بہترین‘‘ کارکردگی دکھائی۔ کئی جگہ پر گاڑی کو روکا اور ’’تیز رفتاری،، کا چالان کیا۔ فیصل آباد سے لاہور تک اڑھائی گھنٹے لگتے ہیں مگر رازی صاحب کی گاڑی چار گھنٹے میں لاہور پہنچی۔ ایک سیلف میڈ باکمال باکردار منفرد اور ممتاز صحافی موٹروے پر مر رہا تھا اور موٹروے پولیس کو اپنی ’’بہترین‘‘ کارکردگی دکھانے کا شوق چڑھا ہوا تھا اور وہ ممتاز صحافی رازی صاحب کی گاڑی پر اپنے ’’اختیارات‘‘ کے ساتھ چڑھے ہوئے تھے۔ کیا اس غصے اور غم میں نڈھال ہو کر یہ جملہ لکھ دوں کہ کیا رازی صاحب کی موت کے ذمہ دار موٹروے پولیس ہے۔ اس کے لیے تحقیقات ہونا چاہئے۔
عزیزم اویس نے انہیں بار بار بتایا کہ میرا والد رحمت علی رازی ٹھیک نہیں ہے اور مجھے فوری طور پر لاہور پہنچنا ہے۔ سینئر صحافی برادرم مجیب الرحمن شامی فیصل آباد سے ہی صرف دو اڑھائی گھنٹے میں لاہور پہنچ گئے تھے۔
اللہ انہیں زندگی دے انہیں اپنے قبیلے کے ایک بیش بہا زندگی کے لیے موٹروے موت کا راستہ بن گئی تھی۔ ان کی گاڑی رازی صاحب کی گاڑی کے پاس سے گزر کر لاہور پہنچی ہو گی۔
موٹروے پولیس والے عام پولیس سے اپنے آپ کو مختلف اور ممتاز سمجھتے ہیں مگر لگتا ہے کہ یہ بھی عوام دوست پولیس نہیں ہے بلکہ وہ بھی اپنی شان و شوکت اور رعب داب وغیرہ وغیرہ کو سنبھالے رکھنے کی کوشش میں ہیں۔ اس کوشش میں بے چارے عام لوگوں کا ہی نقصان ہوتا ہے۔ بلوچستان کے اسلم رئیسانی یاد آتے ہیں ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی۔
پولیس تو پولیس ہوتی ہے موٹروے کی ہو یا جی ٹی روڈ کی ہو۔
میں ایک دفعہ فیصل آباد سے ہی لاہور آ رہا تھا۔ موٹروے پولیس کے افسر نما شخص نے مجھے روکا۔ اس کے کئی چمچے بھی ساتھ تھے۔ اس نے میری بات سُننے سے انکار کیا اور صرف اپنے آپ کو سچا کہا۔ میرا چالان کیا۔ مجھ سے جرمانہ لے کے اپنی جیب میں ڈالا اور بڑی رعونت سے مجھے وہاں سے جانے کا حکم دیا تو دوسری پولیس والے اس کے علاوہ بے چارے معصوم لوگوں سے کیا کرتے ہیں۔ میں اپنے ایک ساتھی رحمت علی رازی کی تعزیت اپنے آپ سے کرتا ہوں یہ کہوں بھی تو کیا ہو گا کہ رازی صاحب کی موت کی ذمہ داری موٹروے پولیس پر عائد ہوتی ہے۔