خدا خدا کر کے شوگر مافیا کے خلاف رپورٹ آگئی اور فرانزک رپورٹ کے مطابق ذمہ داران کا تعین بھی ہو چکا ہے۔ طویل عرصے سے شوگر مافیا نے ملکی معشیت کی گردن پراپنے پنجے گاڑ رکھے تھے۔ عام آدمی بھی اس طرح متاثر ہوتا رہا کہ کبھی راشن کارڈ ہاتھ میں تھامے راشن ڈپووَں پر طویل قطاروں میں ایک یا دو کلو چینی کے حصول کے لیے گھنٹوں اور پہروں منتظر رہا۔ چینی کے حصول کی ناکامی پر گڑ اور شکر کا سہارا لیا لیکن ہمارے تسلی نہیں ہوئی تھی اور سفید زہر کو اپنے کھانوں کا حصہ بنانا ہماری اشد ضرورت بن چکی تھی۔اپنا شوق پورا کرنے کے لیے جتنا ریٹ بڑھتا رہا ہم برداشت کرتے رہے۔ اس بار تو عجب واقعہ ہوا کہ عام انتخابات2018 کے موقع پر چینی کی فروخت پچاس روپے کلو تھی اس کے بعد پھر ایک سازش ہوئی تو چینی کا ریٹ ساٹھ روپے کلو ہو گیا۔ چینی مافیا کے خلاف رپورٹ آئی تو ریٹ ستر روپے کلو مقرر کیا گیا، حکومت کی جانب سے فرانزک رپورٹ آنے پر چینی اسّی روپے میں فروخت ہونے لگی، اب وہی چینی نوے روپے فی کلو پہنچ کر عوام کی پہنچ سے دور ہو گئی۔ اب زرا حکومت کی ظرف سے بنایا گیا کمیشن جو مشہورِزمانہ بیوروکریٹ کی سربراہی میں تشکیل دیا گیااس کی فرانزک رپورٹ کے بعد جو صورتحال سامنے آئی اس کے مطابق 1985 سے چینی سکینڈل میں ملوث شوگرمالکان کے خلاف انتیس ارب روپے سبسڈی دیئے جانے پر قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔ وزیراعظم نے کمیشن کی سفارشات کی باقاعدہ منظوری دے کے کاروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ انتیس ارب روپے کی سبسڈی کا کیس نیب کی دسترس میں ہو گا۔ جبکہ نو شوگر ملوں کے علاوہ دیگر شوگر ملوں کے خلاف بھی تحقیقات ہوں گی۔ چینی چوری اور ٹیکس چوری کے معاملات ایف بی آر کے ذمہ ہو گی اور نوے روز کے اندر ریکوریز اور قانونی کاروائی کی رپورٹ پیش کی جا ئے گی۔کمیشن کی رپورٹ بتاتی ہے کہ چینی بحران میں سیاسی لوگ ملوث رہے ہیں ۔ یہ بااثر لوگ حکومتی جماعت اور اپوزیشن اراکین پر مشتمل ہیں ۔ شوگر انڈسٹریز کے لوگ من چاہی زیادتی کے مرتکب رہے ہیں۔ چینی کمیشن نے اس رپورٹ میں بڑی عرق ریزی سے کام لیا۔ ایسے شواہد بھی سامنے لائے گئے ہیں کی چینی افغانستان برآمد کی گئی لیکن طُرفہ تماشہ یہ ہوا کہ چینی افغانستان ایکسپورٹ تو کی گئی مگر اصل برآمدگی اور دستاویزات میں واضح تضاد نظر آیا۔پندرہ سے بیس ٹن والے ٹرکوں پر اسّی ٹن کی رسیدیں منسلک کی گئیں تھی۔ مزید یہ کہ اس عمل میں منی لانڈرنگ بھی واضح تھی کیونکہ اس طرح بلیک منی کو وائیٹ کیا گیا تھا۔ اس طرح شوگر ملز مالکان نے حکومتی اجازت کے بغیر اضافی چینی بناکر فراڈ بھی کیا۔ اس فراڈ کو صوبائی محکمہ اینٹی کرپشن دیکھے گی۔ سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کم دینے کے بھی واضح شواہد دستیاب ہیں۔ صرف ایک مل حمزہ شوگر ملز نے ایک سال میں ایک ارب سے زائد کا ٹیکس ادا نہ کرنے کا فراڈ بھی سامنے آیا۔ بے نامی ٹرانزیکشن کے شواہد بھی سامنے آئے ہیں۔ اسی طرح جمال دین والی شوگر مل کا ٹیکس فراڈ بھی واضح ہے۔ اس مکمل رپورٹ میں غیر قانونی اضافی چینی کی پیداوار، سبسڈی حاصل کر کے چینی کی برآمدات میں دھوکہ دہی کے شواہد بھی سامنے لائے گئے ہیں۔ چند جگہوں پر چینی کی برآمد بالکل نہ ہو سکی اور حکومت سے سبسڈی اینٹھ لے گی۔چینی انکوائری کمیشن میں چونکہ بڑے لوگ ملوث ہیں اس لیئے چینی مافیا میں بھگدڑ مچی ہوئی ہے۔ اب کچھ سیاست دان آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کر کے حکومت اور حکومتی اداروں کو بلیک میل کرنے کی کوشش میں سرگرداں ہے۔ اسی کیس میں منفرد نام جہانگیر ترین کا ہے جو خاموشی سے لندن سدھار گئے ہیں۔ چینی کمیشن رپورٹ کا ایک اہم پہلو ناظرین اور قارئین کی نظر سے گزرا ہو گاکہ اس مافیا کے تمام لوگ ابھی تک حکومتوں میں ہیں ئا پھر آزاد گھوم رہے ہیں۔ جبکہ حکومتی ترجمان اس کامیابی کا ڈھنڈورہ پیٹ رہے ہیں کہ اگر چینی مافیا کو کسی نے ہاتھ ڈالا ہے یا انکوئری شائع کی ہے اور کسی مافیا سے نہ ڈرنے والا عمران خان ایسے مافیاز کو کیفرِ کردار کرر پہنچا کر دم لیں گے۔
چینی انکوئری کمیشن اور اس کی تشہیر پر خوشامدیوں کی طرف سے جو ڈونگرے پائے جارہے ہیں اور جو توقعات کی جارہی تھیں کہ اب مافیا کے بڑے بڑے ذمہ دار جیلوں میں ہوں گے، ریکوریاں کی جائینگی۔ یہ سارے اندازے اس وقت ہی دم توڑ گئے جب چینی مافیا کا مبینہ طور پر ایک حکومتی لیڈر ملک سے باہر چلا گیا۔ غریب عوام کے سارے خواب دھڑام سے زمین بوس ہو گئے جب شوگر ملز مالکان کی ایسوسی ایشن عدالت عالیہ اسلام آباد چلے گئے پوری رپورٹ اور متوقع کاروائیوں کے خلاف حکم امتناعی جاری کر دیا اور حکم دیا کہ اب چینی بنانے والے کارخانہ دار ستر روپے کلو کے ریٹ پر فروخت کریں۔ اب حکومتی ادارے پھر دکانداروں کے پیچھے چڑھ دوڑیں گے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ قانونی کاروائی صرف غریب کے حصے میں آتی ہے۔ کورونا میں اگر ان کی کمی بیشی ہوئی تو غریب عوام کو سرِعام تھپڑ مارے گئے۔ چینی بحران پر بھی عام آدمی ہی قصور وار ٹھہرا اور اس سفید زہر سے دور رہنے کے مشورے دئیے جاتے رہے۔آٹے کے لیے بھی لوگ طویل قطاروں میں دو وقت کا اپنے بچوں کے پیٹ کے ایندھن کے لیے خوار ہوتے رہے۔ مالی سال کے بجٹ سے پہلے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں گرائی گئیں تو عام آدمی کے حصے میں کچھ نہیں آیا۔ طویل قطاروں میں ایک لیٹر کے لیئے ساری رات منتظر رہے لیکن پیٹرول ان لوگوں کو ملا جو معاشرے میں شریف اور با اختیار سمجھے جاتے تھے یا پھر ایسے لوگوں کو میسر آیا جنہوں نے دوسو روپے فی لیٹر پیٹرول بیچا اور غریب مہنگا حاصل کرنے پر مجبور تھا۔ سال 2020-21 کا بجٹ پیش ہوا تو سب سے کمزور طبقات تنخواہ دار یا ریٹائر ملازم کو بھرے اجلاس میں ٹھینگہ دیکھایا گیا اور مشورہ دیا گیا کہ شکر کریں کی تنخواہوں میں بیس فیصد کٹوتی نہیں کی گئی۔ لہذا گزشتہ تنخواہوں اور پنشن پر گزارہ کیا جائے۔ باقی بجٹ میں خیر ہی خیر رہی اور ایسا بجٹ قرار دیا گیا جو ہر نئے ٹیکس سے مثتسنی ٰ ہو گا دوسرے لفظوں میں برے حالات میں حالیہ بجٹ بہت عمدہ بجٹ قرار دیا گیا۔ اگر کرونا کی وبا نہ ہوتی تو عوام کو وہ ثمرات بھی ملنے تھے جو کسی حکومت نے نہیں دئیے ہوتے سوچنے کی بات ئی ہے کہ جس ملک میں آٹے اور چینی کے ذمہ داران حکومتی عہدوں پر براجمان ہوں ، ذمہ داران کو ملک سے باہر خصوصی طیاروں پر نکال دیا جائے تو کیسے توقع کی جائے کہ احتساب ہو رہا ہے۔ غریب اب بھی کورونا کے خوف میں مبتلا آٹا ، چینی اور پیٹرول کے حصول کے لیے سرگرداں نظر آتے ہیں ۔ آخر عام آدمی کا کیا قصور ہے۔ حکومت پاکستان کو اربوں ڈالر امداد اور گرانٹس ملی لیکن عام آدمی کی صورتحال وہی ہے جو 1947 میں تھی۔
چینی اور پیٹرول بحران۔۔۔۔بجٹ2020-21
Jun 17, 2020