کرونا ملک توڑ سکتا ، عوام الیکشن میں بتائیں گے کون جاہل ہے: بلاول

اسلام آباد(نا مہ نگار) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ یہ کہا جا رہا کہ پاکستان کہیں اسرائیل کو تسلیم تو نہیں کر رہا، میں واضح طور ایوان میں کہتا ہوں کہ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے، پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کر رہا۔ منگل کو قومی اسمبلی میں خواجہ آصف کے نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میری غیر حاضری میں خواجہ آصف نے کچھ باتیں کیں، میں چاہتا ہوں ایوان کے سامنے تفصیلات پیش کروں، خواجہ آصف نے کہا کہ ہم اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کرتے ہیں، میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ اس میں کوئی حقیقت نہیں، اس بات کی تشریح کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ عرب ممالک کے اب اسرائیل سے تعلقات بہتر ہو گئے ہیں تو کہیں ہم ان کے دبائو میں آ کر ایسا نہ کر رہے ہوں لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔ فلسطین پر ہمارا موقف وہی ہے جو آپ کا تھا، جب آپ وزیر خارجہ تھے، ہمارا وہی موقف جب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، پاکستان کا جو تاریخی موقف تھا، آج بھی وہی ہے کہ ہم دو ریاستی حل کے کل بھی قائل تھے، آج بھی قائل ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ وہی فلسطین چاہیے جس کی سرحدیں 1967سے قبل والی ہوں اور جس کا دارالخلافہ القدس شریف ہو، یہ پاکستان کا مسلسل موقف رہا ہے اور آج بھی وہی موقف ہے لہذا اس سلسلے میں کسی تشویش یا ابہام کی گنجائش نہیں ہے۔ ان کہنا تھا کہ بھارت کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کا موضوع تو زیر بحث ہے ہی نہیں کیونکہ اس کے لیے جو اصلاحات درکار تھیں وہ نہیں کی گئیں لہذا اس کی نوبت ہی نہیں آئی۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ غیرمستقل رکن کی بات کی جائے تو وہ بدلتے رہتے ہیں مثلا جب سے ملک آزاد ہوا ہے تو سات مرتبہ ہندوستان سلامتی کونسل کا رکن رہا ہے اور سات مرتبہ ہی پاکستان بھی کونسل کا رکن رہا ہے۔ بھارت نے 2011میں رکن بننے کی تیاری شروع کردی تھی اور اب ہم نے بھی 26-2025میں آٹھویں مرتبہ رکن بننے کا اعادہ کیا ہے اور اس کے لیے لابی کر رہے ہیں کیونکہ اس کا الیکشن 2024میں ہو گا۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کشمیر پر ہمارا موقف ایک تھا، ایک ہے اور میری کوشش ہو گی کہ ایک رہے کیونکہ اس پر قومی اتفاق رائے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارا ماننا ہے کہ کشمیر پر سیاسی اور قومی اتفاق رائے کے ساتھ ساتھ پارلیمانی اتفاق رائے بھی ہونا چاہی لہذا میں سیاست سے بالاتر ہو کر ایک کمیٹی تشکیل دے رہا ہوں۔ میں اس کمیٹی میں قومی اسمبلی اور سینٹ سے نمائندگی کے لیے مسلم لیگ ن کو دعوت دے رہا ہوں، پیپلز پارٹی کو دعوت دے رہا ہوں اور جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی کو دعوت دے رہا ہے کیونکہ کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جو جماعتی مفادات سے بڑھ کر ہوتے ہیں اور کشمیر، فلسطین کا مسئلہ اور اقوام متحدہ کی اصلاحات ان میں سے ایک مسئلہ ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں اس ایوان اور مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر کو اس بات کی یقین دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، ہم سے منسلک یہ تمام باتیں بے بنیاد ہیں، ہم ایک ہیں اور ان مسائل پر ایک رہیں گے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ غیرمبہم انداز میں خدشات کا وزیر خارجہ نے تفصیلی جواب دیا،اجلاس کے شروع میں تفصیلی بیان آجاتا تو ایوان میں ہوئی تلخی کو روکا جا سکتا تھا، پاکستان نظریاتی ریاست ہے ہم فلسطین کی حمایت سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے، وزیر خارجہ کے وضاحتی بیان پر ان کا شکرگزار ہوں۔ بلاول بھٹوزرداری نے کہا کہ ہم تاریخ میں اس وقت چیلنجز کے سامنے کھڑے ہیں، پاکستان میں اس وقت کرونا سے 15منٹ بعد ایک شخص جان کی بازی ہار رہا ہے، ہمارا 2020کا جو بجٹ ہے، وہ ہمارا بجٹ نہیں ہو سکتا ہے، کس نے کہا تھا کہ پاکستان میں یہ تو نزلہ زکام ہے؟ کس نے کہا تھا کہ کرونا وائرس جان لیوا نہیں ہے ،کون کہتا تھا کہ گرمیوں میں کرونا خود بخود ختم ہو جائے گا ، کس نے کہا تھا کہ لاک ڈاون حل نہیں ہے۔ آج تک وہ کنفیوز ہے ’’میں کس کے ہاتھ اپنا لہو تلاش کرو ں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اندازہ ہونا چاہیئے کہ تاریخ میں ہم کہاں کھڑے ہیں،ہمیں صدی میں بڑا چیینج درپیش ہے ،کرونا ملک کو توڑ سکتا ہے، ہر پاکستانی کی معاشی حالت متاثر ہو رہی ہے، ٹڈی دل کا خطرہ ہے ،سیلاب کی تباہ کاریوں کی پیش گوئی ہو رہی ہے، افسوس ایسے حالات میں ایسا بجٹ نہیں ہونا چاہیئے، یہ بجٹ کرونا ، ٹڈی دل کا مقابلہ نہیں کر سکتا ،اس وقت کرونا کی وجہ سے لاکھوں افراد متاثر ہیں، افسوس ہمارے پاس کوئی حل تک نہیں ہے ،پھر کہتے ہیں کہ پاکستان کے عوام جاہل ہیں، آپ کیسے اس عوام کو ذمہ دار قرار دے سکتے ہیں عوام الیکشن میں آپ کو بتائے گی کون جاہل ہے،آپ نے زبردستی کرونا وائرس جو پھیلایا ہے، ہمیں لائف ٹائم چیلنجز کا سامنا ہے، ہر پاکستانی کی صحت، زندگی اور معاشی صورتحال اس وبا کی وجہ سے خطرے میں ہے،پی ٹی آئی حکومت ہر اس فیصلے اور مشورے کی مخالفت کی جو کورونا وائرس کی وبا کو روکنے میں مددگار تھی۔ بجٹ پاکستان کا نہیں بلکہ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے،موجودہ دیکھ پتہ چلتا ہے کہ اس حکومت کی کوئی سمت ہے اور ناں ہی کوئی ویژن ہے،آپ کے بجٹ میں کیا تیاری ہے کہ کرونا کے حوالے سے ،اب تک ہم نے بجٹ میں اس وبا کے لیے کیا رکھا ہے،جب آپ جانتے ہیں کہ یہ پھیلے گا تو پھر آپ نے کیا کر رکھا ہے،کیا آپ نے ڈاکٹروں ، نرسنگ اسٹاف کے لیے رسک الائونسز دیے، انتہا پسندی کے بارے میں ہم نے آپ کو خبردار کیا تھا ،صدر زرداری نے ٹڈی دل پر خبردار کیا تھا ،دہشتگردی میں ہم مارے گئے ،جب تک اے پی ایس کا واقعہ نہیں ہوا تھا کوئی ہماری بات نہیں مانتا تھا ،ہم چیخ چیخ کر بول رہے تھے کہ یہ خطرات ہیں ،آپ چاہتے ہو کہ کسان کا معاشی قتل ہو،ہم فروری سے کرونا کا واویلا مچا رہے ہیں ،آپ ہماری بات نہیں مان رہے تھے ،اب ہمارے وفاق کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے، ہم نے کرونا پر حکومت کو تعاون کی آفر کی، ہم نے سیاست سے بالاتر ہو کر پاکستان کا سوچا ،ہم نے لاک ڈاون کی درخواست کی تھی، حکومت نے کورونا روکنے کے ہر اقدامات کی مخالفت کی، وفاق نے کورونا پر اپنی صوبائی حکومتوں کی مخالفت کی‘ بجٹ دیکھ کر لگتا ہے کرونا کا کوئی خطرہ نہیں ہے، پیپلز پارٹی نے ہمیشہ ملکی خطرات سے متعلق آگاہی مہم بلائی، کیا حکومت چاہتی ہے سارے کھیت تباہ ہوجائیں اور کسان کا معاشی قتل ہو؟حکومت کی سلیکشن میں وفاق، لوگوں کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ ہمارا وزیراعظم اپنے اے ٹی ایم کی بات سن رہا تھا، انہوں نے کہا کہ ہم نے ٹڈی دل کے سپرے کے لئے جہاز مانگے ایک بغیر پائلٹ کے جہاز سکھر میں کھڑا ہے ۔انہوں نے کہا کہ چین اور جرمنی نے کرونا پر قابو پایا، ہم نے اٹلی سے بھی نہیں سیکھا ،ہم نے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے بھی نہیں سیکھا ،غریب ممالک بھی کرونا کا مقابلہ کر رہے ہیں، غریب ویتنام میں کرونا سے ایک فرد بھی نہیں مرا، ویتنام نے قوم بن کر کرونا کا مقابلہ کیا ،ہم نے صرف 92کا ورلڈ کپ جیتا ہے، ہمارا کرونا کا وزیر جو سویڈن کی بات کرتا تھا، آج وہ کہہ رہے ہیں وہ غلط تھے لیکن آج آپ دیکھیں سب سے زیادہ معیشت کا برا حال ہے ۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...