جب مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوا تھا تو میںنے کئی بزرگوں یہاں تک کہ نوجوانوں کو دھاڑے مارتے روتے دیکھا ، دل خون کے آنسورویا، مشرقی پاکستان کی علیحدگی صرف ہمارے نا عاقبت اندیش سیاستدانوں کی وجہ سے ہوئی جنہوںنے انتخابات کے بعد بھی ہوس اقتدار ، یا کرسی کی محبت میں وطن عزیز کے ایک بڑے حصے کو دشمنوں کے پلڑے میں ڈال دیا اور کوئی شرم محسوس بھی نہیں کی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی واقع کی تحقیقات ہوتی اور وہ کچھ ہوتا جو آج تک پاکستان میں نہیں ہوا یعنی ان غداران کو بعد ازمرگ بھی سزا دی جاتی۔ہم ایک دوسرے پر بہت آسانی سے غداری کے الزامات تو عائد کردیتے ہیں مگر جب انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کا وقت آئے تو ہم گونگے بہرے ہوجاتے ہیںمصلحتیں سامنے آجاتی ہیںاتنے بڑے سانحہ سے بے وقوف اور اپنی ذات سے آگے نہ دیکھنے والوںنے کوئی سبق سیکھا نہ شرمسار ہوئے ۔ دوسرا سانحہ دو روز قبل اسلام آباد میںہوا جب ان لوگوںکو ایک دوسرے کو غلیظ گالیاں دیتے ٹیلی ویثرن پر دیکھا، وہ جو کہتے تھے ’’ 200ملین ڈالر منہ پہ مارے گی ‘‘ وہ اس ملک کے بجٹ کی کاپیاں نہ صرف دوسرے اراکین پر پھینک ماررہے تھے بلکہ اسمبلی کی نشست کی میز پر کھڑے ہوکر ماررہے تھے ، انکے ساتھ وزارت داخلہ کے ایک ذمہ دارکھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے ، ایک رکن صاحب سیٹی بجارہے تھے ، سیٹیا ں ایوان میںلیکر آئے ! اسکا مطلب ہے کہ انتظام پہلے ہی سے تھا ۔ ، انکے ہمراہ ہمارے وزیر خارجہ آرام سے کھڑے تھے ، دوسری جانب کھڑے حزب اختلاف کے اراکین بھی کوئی ’’فرشتہ ‘‘نہیںتھے وہ بھی خوب گلی محلے کا منظر پیش کررہے تھے ۔ اسطرح قومی اسمبلی یا اپنی ’’جمہوریت کی ایک نئی تاریخ رقم ہوئی ۔ گو کہ اس ’’گوشت مارکیٹ ‘‘کے اجلاس سے قبل حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان معاہدہ طے ہوا تھاکہ تقاریر کے درمیان کوئی بد نظمی نہیں ہوگی، مگر صاحب کیا کیا جائے؟ بجٹ جس میں عوام کی فلاح بہبود کیلئے کچھ نہ تھا ، اسلئے کچھ نہ کچھ تو کرنا تھا ۔ پاکستان کی معیشت کے بہترین ہونے کا دن رات چرچاہے ، وزیر خزانہ شوکت ترین بھی کیا خوب ہیں وزیر بننے سے دو ہفتے قبل حکومت کی معاشی پالیسیوں پر تنقید ، وزیر بنتے ہی حکومت کی معاشی پالیسیوں کو پاکستان کی تاریخ کی بہترین پالیسی ہونے کا قصیدہ شروع کردیا ( مقدمات انسان سے کیا کچھ نہیںکراسکتے ؟) بجٹ جس میں نوید دے دی گئی کہ عوام کی فلاح و بہبود کا بجٹ ہے ، تنخواہوں میں اضافہ ( جبکہ تنخواہ میں اضافہ حل نہیں بلکہ ضروریات زندگی کی اشیاء کی قیمت کم کرنا حل تصور ہوتا ہے ) پیٹرول کی قیمت میں اضافہ کی نوید ، کون ذی شعور یہ کہہ سکتا ہے کہ پیڑول ، بجلی کے نرخ بڑھنے کے بعد مہنگائی میں مزید ’’آگ ‘‘ نہیں لگے گی ۔ لگتا ہے قائد حزب اختلا ف نے اس ’’عوامی بجٹ‘‘ کا آپریشن کرنا تھا اسلئے یہ ضروری تھا کہ ایوان کو مچھلی بازار بنا دیا جائے یہ بات تو طے ہے کہ قائد حزب اختلاف کی تقریر کے وقت حزب اختلاف کے اراکین تو ہنگامہ آرائی کا آغاز نہیں کرسکتے ، یہ مہربانی حکومتی اراکین کی جانب سے شروع ہوئی ہوگی۔ پاکستان کے عوام کو کبھی بھی اپنی اسمبلیوں سے کوئی امید نہیں رہی ، یہ ایک عرصہ پرانی کہانی ہے کہ جب بھی اسمبلیوں کے اور خاص طور پر قومی اسمبلی کے اجلاس ہوتے ہیں وہاں کسی بھی اہم موضوع پر حکومتی اراکین اور حزب اختلاف کے اراکین کی آراء میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے یا یوں کہا جائے کہ ’’مخالفت برائے مخالفت ضروری ہوتی ہے جس کی وجہ سے ہماری اسمبلیاں ماسوائے اراکین کی تنخواہوں، مراعات کے علاوہ کوئی قانون اتفاق رائے سے منظور کرنے سے قاصر ہیں، سابق جنرل مشرف کم صدر پاکستان نے یہ شرط عائد کی تھی رکن اسمبلی کو کم از کم BA کی ڈگری کا حامل ہونا چاہئے ، پیسہ کمانے کے شوقینوں میں ایسے کئی افراد رتھے جنہوںنے مدرسوں کا منہ نہ دیکھا ہوگا ، وہ راتوں رات BA کی ڈگری کے حامل ہوگئے ، جنکی ڈگریوںپر شک ہوا مد مقابل نے اسکی تحقیقات کا مطالبہ کیا ،مقدما ت عدالتوں میں چلتے رہے ، جب وہ تک وہ اسمبلی کی رنگ رنگلیوں کا مزہ لیتے رہے ، کچھ مر کھپ گئے اور انکے حق یا مخالفت میںجب آیا جب فیصلہ آیا تو وہ اپنا فیصلہ کرانے اللہ تعالی کے حضور پہنچ چکے تھے ۔ اسوقت ضرورت اس بات کی ہے ہماری سپریم کورٹ اسمبلی کی دھما چوکڑی کا از خود نوٹس لے ، اجلاس کی فوٹیج منگوائے ان ’’اسٹریٹ بوائز ‘‘پر تاحیات سیاست میں آنے پر پابندی عائد کرے۔ اسپیکر قومی اسمبلی بھی اس کی تحقیقات کررہے ہیںمگر اس تحقیقات پر حکومتی دبائو ہوگا ۔ ہنگامہ آرائی میں بجٹ کی کاپیوں کی توہین نہ صرف حزب اختلاف بلکہ حکومتی اراکین نے بھی جی بھر کے کی۔ میں اپنے بھر پور یقین سے کہہ سکتا ہوں جو اراکین بجٹ کی کاپیاںپھینک رہے تھے، وہ اس بجٹ کی الف ، بے سے بھی واقف نہیں ہونگے ۔
٭…٭…٭