نیشنل ہائی وے اتھارٹی وفاقی ادارہ ہے اور اس ادارے کی غیر ذمہ داری یا تساہل سے براہ راست وفاق بدنام ہوتا ہے اور اسی طرح اسکی اچھی کارکردگی بھی وفاق کی نیک نامی کا باعث بنتی ہے۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی ملک میں مساوی ہائی ویز کی تعمیر کی پالیسی پر عمل پیرا ہو تو اس سے صوبوں کے درمیان محبت میں اضافہ ہوگا اور اسی طرح کسی مخصوص صوبے یا علاقے کی عوام کو سہولیات کی فراہمی میں تاخیر سے وفاق اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی بدنام ہوگی۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا کام صرف ٹول ٹیکس جمع کرنا نہیں بلکہ بروقت سڑکوں کی تعمیر و مرمت اسکی اولین ذمہ داری میں شامل ہے۔ جامشورو سے شروع ہونے والی اہم قومی شاہراہ انڈس ہائی وے ڈیرہ اسماعیل خان اور پھر پشاور تک جاتی ہے لیکن اسکی حالت زار کسی سے پوشیدہ نہیں۔ جامشورو سے شکارپور تک انڈس ہائی وے کی حالت بہت خراب ہے اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے طویل عرصے سے جامشورو سیہون انڈس ہائی وے کو بڑی ٹریفک کیلئے بند کر رکھا ہے جس کے باعث لعل شہباز قلندر کے مزار پر جانے والے زائرین کو پہلے نیشنل ہائی وے پر مورو تک سفر کرنے کے بعد دادو آکر سیہون جانا پڑتا ہے اور یہ سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے۔ اگر تعمیراتی کام تیزی سے ہورہا ہوتا تو عوام بھی صبر کرتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس شاہراہ کی تعمیر انتہائی سست روی کا شکار ہے اور عوام مشکلات کا شکار ہیں۔
ایک طرف نیشنل ہائی وے اتھارٹی بلند بانگ دعوے کرتی ہے اور موٹرویز کی تعمیر کے بیانات دیئے جاتے ہیں تو دوسری جانب سندھ صوبے کے عوام کو طویل عرصے سے مشکلات کا شکار بنارکھا ہے۔ اس سلسلے میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو چاہئے کہ جامشورو سیہون انڈس ہائی وے کا تعمیراتی کام فوری طور پر مکمل کرکے اسے ہرطرح کی ٹریفک کیلئے کھولا جائے اور انڈس ہائی وے خصوصاً شکارپور تک کی سڑک کو دو رویہ بہترین معیار پر بنایا جائے تاکہ انڈس ہائی وے پر سفر کرنیوالے افراد کی مشکلات میں کمی آسکے۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی اس سستی کی وجہ سے سندھ کے عوام میں یہ تاثر پیدا ہورہا ہے کہ سندھ کو وفاق کی جانب سے جان بوجھ کر نظر انداز کیا جارہا ہے۔ انڈس ہائی وے خیبر پختونخواہ‘ جنوبی پنجاب اور سندھ کی جانب سفر کرنے والوں کیلئے اہم شاہراہ ہے اور اس کو عالمی معیار کے مطابق رکھنا نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی ذمہ داری ہے لیکن تعمیرات کے نام پر طویل عرصے تک سڑک کو بند کرکے کام میں سست روی بھی عوام دشمنی کے مترادف ہے۔وفاق کی جانب سے موٹرویز اور شاہراہوں کی تعمیر کے دعوے اچھی بات ہے لیکن انہیں یہ کیوں دکھائی نہیں دیتا کہ کوئٹہ کراچی شاہراہ پر آئے روز سنگین ترین حادثات رونما ہوتے ہیں جس میں اکثر اوقات تمام مسافر جاں بحق ہوجاتے ہیں اور کراچی کوئٹہ شاہراہ پر افغانستان‘ ایران و ترکی سمیت وسط ایشیائی ریاستوں کی ساری تجارت ہوتی ہے لیکن سنگل روڈ ہونے کے باعث بھیانک تصادم اور گاڑیوں کے کھائی میں گرنے کے بہت زیادہ واقعات رونما ہوتے ہیں لیکن کراچی کوئٹہ شاہراہ کو ڈبل کرکے عالمی معیار کے مطابق تعمیر نہیں کیا جارہا۔
پنجاب میں بھی عوام کو ہمیشہ یہ شکایت رہی ہے کہ تمام تر وسائل لاہور سمیت بڑے شہروں پر خرچ کردیئے جاتے ہیں اور جنوبی پنجاب کے عوام کو یکسر نظرانداز کر رکھا ہے۔ مظفرگڑھ میانوالی روڈ خصوصاً ضلع بھکر کو میانوالی سے ملانے والی شاہراہ کھنڈر کا منظر پیش کر رہی ہے اور طویل عرصے سے یہ شاہراہ ہمیشہ نظرانداز کی گئی ہے جس سے سنگین حادثات معمول بن چکے ہیں اور میانوالی مظفرگڑھ روڈ پر سفر کرنیوالوں کو ذہنی اذیت کا سامنا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی ہمیشہ اس رویئے کی حوصلہ شکنی کی ہے کہ تمام فنڈز مخصوص علاقوں پر لگاکر پورے ملک کو نظرانداز کرنا درست نہیں اور ہم پسماندہ علاقوں کے مسائل حل کرینگے۔ وزیراعظم عمران خان کو چاہئے کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو پابند بنائے کہ میانوالی مظفرگڑھ روڈ کو فوری طور پر تعمیر کیا جائے اور جہاں مرمت کی ضرورت ہے فوری طور پر مرمت کا کام کیا جائے۔
کراچی میں ناردرن بائی پاس آئی سی آئی برج سے لیکر سپرہائی وے تک نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے تحت کردیا گیا تھا۔ گزشتہ سال کراچی میں تاریخ کی طوفانی بارشیں آئیں جس سے ہر طرف تباہی کے مناظر تھے۔ ناردرن بائی پاس شیرشاہ برج سے سپرہائی وے تک مٹی کی بھرائی کرکے کافی اونچا بنایا گیا تھا اور گزشتہ سال کی بارش سے شیرشاہ سے لیکر نیول کالونی تک کے علاقے میں سڑک کے نیچے سے بھرائی پانی کے ساتھ گزشتہ بارشوں میں بہہ گئی تھی لیکن ابھی تک اس بات کا نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو علم نہیں ہوسکا اور صورتحال یہ ہے کہ خدانخواستہ کسی بھی وقت وزنی گاڑی سڑک کے بالکل کنارے پر آتے ہی سڑک سمیت نیچے کھائی میں گرنے کے بہت زیادہ خدشات موجود ہیں۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی ہنگامی طور پر شیرشاہ سے لیکر حب ریور روڈ کے متوازی چلنے والی ناردرن بائی پاس کے دونوں کناروں کے ساتھ فوری طور پر مٹی کی بھرتی ڈال کر پتھروں سے پشتے بنائے ورنہ کسی بھی وقت سنگین حادثہ رونما ہوسکتا ہے۔
نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی اس چشم پوشی یا لاپرواہی کے باعث میں تو یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ شاید اس ادارے کی اولین ترجیح صرف ٹول ٹیکس کی شرح بڑھاکر پیسہ کمانا ہی ہے اور سڑکوں کی بروقت تعمیر و مرمت کے لئے کوئی اور مخلوق آئے گی۔ کراچی جیسے شہر میں ناردرن بائی پاس کی یہ حالت بھی اس ادارے کے ذمہ داروں کی نظروں سے پوشیدہ ہے تو پھر ملک کے دور دراز علاقوں کی عوام کی شکایات تو کبھی حل نہیں ہوسکتیں۔ وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزیر مواصلات کو چاہئے کہ اس متعلق وفاق کی بدنامی کا باعث بننے والے افراد کا محاسبہ کریں اور درج بالا پروجیکٹس کو فوری طور پر شروع کرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ توجہ چھوٹے صوبوں اور پسماندہ علاقوں سے گزرنے والی قومی شاہراہوں کی تعمیر و مرمت پر دی جانی چاہئے جس سے یقینی طور پر وفاق مضبوط ہوگا۔