قومی اسمبلی میں ارکانِ پارلیمنٹ کی ’’بصیرت افروز‘‘مغلظات

قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث سے متعلق اجلاس میں اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف کی تقریر کے دوران گزشتہ روز حکومتی اور اپوزیشن ارکان کے مابین قومی اسمبلی کی تاریخ کی بدترین بدکلامی اور کشیدگی کے مناظر دیکھنے میں آئے۔ دونوں طرف سے ارکان نے ایک دوسرے پر بجٹ کی کاپیوں سے حملے کئے جبکہ وفاقی وزراء اور وزرائے مملکت بھی ایسے ناگوار مناظر میں پیش پیش نظر آئے۔ ان مناظر میں ارکان اسمبلی وسل اور سیٹیاں بھی بجاتے دیکھے گئے جبکہ اسلام آباد سے پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی علی نواز اعوان غلیظ گالیوں کے تبادلہ کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی شیخ روحیل اصغر پر حملہ آور ہونے کی کوشش کرتے رہے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی خواتین وفاقی وزراء ڈاکٹر شیریں مزاری اور زرتاج گل کے پاس پہنچ کر بجٹ کی کاپی انکے سامنے موجود ڈیسک پر زور زور سے مارتے رہے اور یہی عمل متذکرہ وفاقی وزراء نے بھی دہرایا۔وفاقی وزیر مراد سعید اور سرکاری رکن فہیم خان اس ہنگامہ آرائی میں سب سے آگے تھے جو ڈیسک کے اوپر کھڑے ہو کر اپوزیشن ارکان کی جانب بجٹ کی کاپیاں پھینکتے رہے۔ اس ہنگامہ آرائی میں حکومتی رکن ملیکہ بخاری سمیت متعدد ارکان زخمی ہوئے۔ سپیکر اسدقیصر نے ہنگامہ آرائی پر قابو پانے کیلئے سارجنٹ ایٹ آرمز پر مشتمل خصوصی سکیورٹی بھی طلب کی مگر وہ بھی ارکان اسمبلی کی ہنگامہ آرائی رکوانے میں ناکام رہے۔ سپیکر نے ہنگامہ آرائی کے دوران تین بار اسمبلی کی کارروائی ملتوی کی مگر ہنگامہ آرائی کا تسلسل برقرار رہا جس پر قابو پانے میں سپیکر قومی اسمبلی بے بس نظر آئے اور پھر انہوں نے اجلاس اگلے روز کیلئے ملتوی کر دیا جبکہ دونوں جانب کے ارکان اسمبلی نے ایوان کا تقدس پامال کرتے ہوئے اسے ہمہ وقت میدانِ جنگ بنائے رکھا۔ اس پوری ہنگامہ آرائی کے دوران بلاول بھٹو زرداری اور حکومتی اتحادی جماعتوں کے ارکان اپنی نشستوں پر بیٹھے تماشا دیکھتے رہے۔ حکومتی اور اپوزیشن ارکان ایک دوسرے کیخلاف عامیانہ انداز میں نعرے بازی بھی کرتے رہے جبکہ وفاقی وزراء حکومتی ارکان کو ہنگامہ آرائی کیلئے اکساتے رہے۔ 
گزشتہ روز جب اپوزیشن لیڈر شہبازشریف نے اپنی تقریر کا آغاز کیا تو اسکے ساتھ ہی وفاقی وزراء سمیت تحریک انصاف کے ارکان نے انکی تقریر میں مداخلت کرتے ہوئے شورشرابا اور ڈیسکوں پر بجٹ کی کتابیں پھینکنے کا سلسلہ شروع کردیا جس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ حکومتی ارکان اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو تقریر نہ کرنے دینے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے ایوان میں آئے تھے۔ حکومتی ارکان سیٹیاں بھی اپنے ساتھ لائے تھے چنانچہ ایوان مسلسل سیٹیوں کی آواز سے گونجتا رہا۔ جب ہنگامہ آرائی کا آغاز ہوا تو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پہلی نشستوں پر موجود تھے جو ہنگامہ آرائی شروع ہوتے ہی ایوان سے باہر نکل گئے۔ اپوزیشن کی جانب بجٹ کی کاپی اچھالنے کا آغاز وفاقی وزیر برائے امور کشمیر علی امین گنڈاپور نے کیا جس کے بعد بجٹ کی کاپیاں ایک دوسرے کو مارنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ متعدد اہلکار بھی بجٹ کی بھاری بھرکم کاپیاں لگنے سے زخمی ہوئے۔ سپیکر قومی اسمبلی اسدقیصر نے ہنگامہ آرائی میں ملوث ارکان کے بدھ کیلئے ہائوس میں آنے پر پابندی عائد کرتے ہوئے ہائوس کے اندر ہونیوالے ہنگامے کی مکمل تحقیقات کا اعلان کیا جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود نے وارننگ دی کہ اگر اپوزیشن ہماری نہیں سنے گی تو ہم بھی انکی نہیں سنیں گے۔ 
ہماری پارلیمانی سیاسی تاریخ میں ہائوس کے اندر حکومتی اور اپوزیشن ارکان کے مابین ہنگامہ آرائی کا یہ پہلا واقعہ نہیں‘ ماضی میں بھی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ایسے ناگوار واقعات رونما ہوتے رہے ہیں اور سابق مشرقی پاکستان کی اسمبلی میں تو ہنگامہ آرائی کے دوران اچھالی گئی کرسی لگنے سے سپیکر جاں بحق بھی ہوگئے تھے۔ ایسے ناگوار واقعات 90ء کی دہائی کی اسمبلیوں میں بھی پیش آتے رہے۔ ایک بار صدر مملکت غلام اسحاق خان کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں خطاب کے دوران بیگم تہمینہ دولتانہ نے انکی طرف اپنا دوپٹہ اچھال دیا تھا جبکہ پنجاب اسمبلی میں غلام حیدروائیں کیخلاف تحریک عدم اعتماد کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے میاں منظور وٹو کے ساتھ کھڑے ہونے والے لیگی ارکان کی ہائوس کے اندر درگت بنائی اور انکے ساتھ ساتھ نومنتخب سپیکر سعیداحمد منہیس کی جانب بھی کرسیاں اچھالنے کا سلسلہ شروع کیا تاہم مغلظات کے ساتھ جس عامیانہ انداز میں گزشتہ روز قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے مساوی طور پر ایوان کا تقدس مجروح کیا اسکی ہماری پارلیمانی تاریخ میں اس لئے مثال موجود نہیں کہ اس ہنگامہ آرائی میں وفاقی وزراء اور وزرائے مملکت پیش پیش تھے جو بادی النظر میں قائد ایوان عمران خان کو خوش کرنے کیلئے ایسا کررہے تھے۔ 
پارلیمنٹ وہ فورم جہاں عوام ملک اور قوم کے بہترین مفاد میں قانون سازی اور آئینی ترامیم کیلئے اپنے نمائندگان منتخب کرکے بھجواتے ہیں‘ بعض معزز ارکان تو مسلسل تین چار اور چھ چھ بار عوامی مینڈیٹ لے کر ایوان میں آئے ہیں جو ’’سیزنڈ پارلیمنٹرین‘‘ کا درجہ رکھتے ہیں۔ اسی طرح اس ایوان میں فارن کوالیفائیڈ اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ بیرسٹر اور ڈاکٹرز بھی منتخب ہو کر آتے اور حکومتی یا اپوزیشن بنچوں کا حصہ بنتے ہیں۔ گزشتہ روز کی ہنگامہ آرائی میں یہ تمام ارکان بلاامتیاز شریک ہوئے اور مغلظات کے ذریعے اپنی علمیت اور ’’فہم و بصیرت‘‘ کا اظہار کرتے رہے۔ ان ارکان نے بنیادی طور پر ملکی اور قومی مفاد کے تناظر میں قانون سازی کرنی ہوتی ہے تاہم گزشتہ روز مغلظات کے شعبے میں انکی مشاقی اور پھکڑپن نے مجموعی طور پر جمہوریت کا مردہ خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہی وہ حالات ہیں جن سے غیرجمہوری عناصر کو فائدہ اٹھانے اور جمہوری نظام پر کیچڑ اچھالنے کا موقع ملتا ہے۔ ہائوس کے اندر گزشتہ روز کی ہنگامہ آرائی اسی ایجنڈے کے تحت کی گئی ہے تو پھریہ جمہوریت سے وابستہ پارلیمانی پارٹیوں اور انکے قائدین کیلئے لمحۂ فکریہ ہونا چاہیے کہ کہیں جمہوریت کو پھر سے ڈی ٹریک کرنے کا راستہ تو ہموار نہیں کیا جا رہا۔ اگر بجٹ اجلاس میں اپوزیشن لیڈر کو نہ بولنے دینے اور انکی تقریر سبوتاژ کرنے کی حکمت عملی سرکاری بنچوں کی جانب سے طے کی گئی تو یہ ہائوس کو نہ چلنے دینے کی ہی حکمت عملی ہو سکتی ہے کیونکہ اسکے بعد اپوزیشن ارکان خاموش تو نہیں بیٹھیں گے۔ اس صورتحال کا وزیراعظم کو خود نوٹس لینا چاہیے کیونکہ سسٹم کو بچانے اور مستحکم کرنے کی بنیادی ذمہ داری حکمران جماعت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن