26مارچ 2021کو جب پیارے دوست سہیل عبدالناصر کی وفات کی خبر ملی تو افسردگی‘ دکھ افسوس اور غم کی شدت کے باعث دل انہیں مرحوم لکھنے کو اور ان سے بچھڑنے کی حقیقت تسلیم کرنے کو تیار نہ تھا۔ ایک دوست کی غم واندوہ میں ڈوبی تحریر پڑھنے کے بعد میں ان کے حوالے سے کچھ لکھنے کے لیے خود کو آمادہ نہ کرسکا ،رحلت کی خبر نے مجھے اشکبار کر دیا گزشتہ کچھ عرصہ میں بے شمار دوست رخصت ہوگئے ان کی یادیں اگرچہ کبھی رخصت نہیں ہوسکتیں مگر وقت کا دریا یادوں کے بہاؤ کو کم کر دیتا ہے کہ مخلص بے لوث دل وجان سے عزیز دوستوں کی اچانک رخصتی غم زدہ کر دیتی ہے ۔
میں نے یاروں کے بچھڑنے سے یہ سیکھا محسن
اپنے دشمن کو بھی جینے کی دعا دی جائے
میرا سہیل عبدالناصر سے بہت مثالی تعلق ایک تھا اور یہ محبت صحافتی دنیا کے سب سے عزیز اصغر شاد کی وجہ سے قائم ہوئی تقریباً اڑھائی عشرہ‘ قبل نوائے وقت میں ایک بڑی خبر شائع ہوئی تھی کہ اسلا م آباد میں مون مذہب (جاپان کے لوگوں کا طرز عمل) کی خاموشی سے ترویج ہورہی ہے اور وفاقی دارالحکومت میں لوگ اس حوالہ سے بے خبر ہیں یہ خبر شائع ہونے کے بعد میں نے اصغر شاد سے دریافت کیا سہیل عبدالناصر کون ہیں ؟ تو اصغر شاد کا جواب تھا انتہائی سادہ مزاج کم گو اور ملنسار انسان ہے آپ کی ملاقات جلد ہی ہوگی وہ نیوز روم سے رپورٹنگ کی جانب آئے ہیں اور آپ دیکھنا جلد ہی رپورٹنگ میں ان کا نام تیزی سے آگے آئے گا شاد صاحب نے میری سہیل عبدالناصر سے میری ملاقات کرائی اور پہلی ہی ملاقات میں اندازہ ہوگیا کہ سہیل صاحب صحافت میں جلد اعلی مقام بنالیں گے۔ ان سے جب مون مذہب ‘ جاپانی کلچر وہاں کی روایات اور خبر کے فیڈ بیک کے بارے میں بات چیت ہوئی تو انہوں نے ایک پوری تاریخ پر روشنی ڈالی جاپان سفارتخانے میں ایک سفارتکار سے میرے خاصے گہرے مراسم تھے اور جاپان کے حوالے سے کئی اہم فیچرز ‘ قومی دن پر خصوصی مضامین لکھنے کی وجہ سے سہیل صاحب سے طویل مباحثہ بھی ہوا۔ خبر کے شائع ہونے کے بعد سہیل ناصر صاحب ہمیشہ ہی خبر پر مثبت رسپانس دیتے انہوں نے کبھی بھی اپنی بیٹ میں مداخلت کے حوالے سے کسی قسم کا ردعمل نہیں دیا یہ بڑے پن اور محبت کا ثبوت ہے یہی نہیں سہیل صاحب نے جس دن چھٹی کرنا ہوتی تھی میں ان کی جگہ دفتر خارجہ‘ سفارتی تقاریب کی خبریں فائل کیا کرتا تھا انہوں نے دوستی خلوص اور مروت میں اپنے بعض رپورٹرز سے بھی کہہ دیا تھا کہ میری غیر موجودگی میں توصیف صاحب کو بلا جھجک خبردیں اور میں صرف چھٹی کے علاوہ کبھی بھی ان کے ذرائع سے رابطہ نہیں رکھتا تھا مجھے یاد ہے سینٹر ہسپتال کے قریب ان کے ایک خاص دوست جو اٹامک انرجی میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے سہیل عبدالناصر میرے ساتھ ان کے گھر جاتے تو میں جان بوجھ کر کچھ دور فاصلے پر کھڑا ہوتا تاکہ میری وجہ سے کچھ پردہ بھی حائل رہے اور پھر سہیل صاحب کہتے توصیف آپ پر مجھے حددرجہ بھروسہ ہے آپ ہماری گفتگو میں شامل ہوا کریں یہ نفیس ترین انسان ہیں مگر میں اصولوں اور اخلاقیات پھر توجہ دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ بھارت کی جانب سے ایٹمی دھماکے کئے گئے تو کئی دن تک پاکستان پر ایک دباؤ رہا میں سہیل ناصر سے کہتا آپ دیکھ لینا پاکستان ہر صورت جوابی دھماکے کر کے حساب برابر کرے گا سہیل عبدالناصر عموماً اس حوالہ یہ خبریں دیتے رہے ایک دن وہ اسلام آباد تاخیر سے گھر آئے سہیل صاحب نے بتایا صبح ایک اہم خبر شائع ہوگی میں نے انہیں بتایاکہ اتفاق سے مجھے بھی اس حوالہ سے خبرملی ہے اور میں نے یہ خبر ایک قدرے چھوٹے اخبار میں دی ہے مجھے پتہ ہے صبح آپ کی خبر تہلکہ مچائے گی اور صبح نوائے وقت میں ان کی خبر عالمی سطح پر اہمیت اختیار کرگئی ۔ پاکستان کی جانب سے جوابی ایٹمی دھماکوں کی خبر غیر معمولی تھی جس دن پاکستان نے چاغی میں ایٹمی دھماکے کئے اسلام آباد شہر میں عالمی میڈیا کے نمائندے سڑکوں پر لوگوں کے انٹرویو کررہے تھے ایک عربی چینل نے بلیو ایریا میں مجھے روک لیا اور پہلے ایٹمی پاکستان کے حوالہ سے گفتگو کی سہیل صاحب سے دفتر میں ملاقات ہوئی تو میں نے انہیں مبارک باد دی یہ ان کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ایک شام کویت سفارتخانے میں قومی دن کے موقع پر ایک پُر تکلیف سفارتی تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا میں اس وقت میں ایک اور روزنامہ میں سفارتی نامہ نگار کی حیثیت میں رپورٹنگ کررہا تھا ہم دونوں جب سفارتخانے کے مرکزی دروازے پر پہنچے تو وہاں ایک پاکستانی ملازم نے سہیل صاحب کے کارڈ کو بغور دیکھ کر کہا کہ یہ کارڈ آپ کے نام نہیں !جس پر سہیل صاحب نے جواب دیا ہمارے چیف ایڈیٹر لاہور میں قیام پذیر ہیں اور سفارتی تقاریب کی کوریج میری ذمہ داری ہے مگر وہ ضدی اہل کار اڑ گیا اور کہا کہ آپ اندر نہیں جاسکیں گے! عجیب صورتحال تھی میں نے اس ملازم کو سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ فرعونیت سے باز نہ آیا ۔ میں نے اندر جاکر سفیر صاحب کو آگاہ کیا وہ خود میرے ساتھ گیٹ تک آئے مگر اس وقت تک سہیل ناصر صاحب جاچکے تھے۔ چند روز بعد میں نے سہیل صاحب سے پوچھا آپ اس دن تقریب میں شرکت کئے بغیر کیوں چلے آئے کہنے لگے یہ خبر اور ڈیوٹی کیلئے وہاں جاتے ہیں عزت نفس پہلی ترجیح ہے۔ کچھ ہی روز بعد سہیل صاحب کے پاس کویت کے حوالہ سے ایک بڑی خبر ہاتھ لگی خبر کی اشاعت کے بعد کویت سفارتخانے کے پریس قونصلر فیصل المطیری جو میرے اچھے دوست تھے انہوںنے مجھے فون کیا اور کہا آپ اپنے دوست کے
ہمراہ سفارتخانہ آسکتے ہیں میں نے سہیل صاحب کو بتایا کہ قدرت نے موقع عطا کیا ہے ہمیشہ عزت نفس کو برقرار رکھتے ہوئے ہم ان سے ملاقات کریں گے ہم سفارتخانہ پہنچے تو اس اہل کار نے ہمارا استقبال کیا اور بڑے ہی معذرت خواہانہ لہجے میں کہنے لگا توصیف صاحب میں اس دن کے معاملے پر بہت شرمندہ ہوں مجھے معاف کردیں مجھے معلوم تھا اس شخص کی نوکری داؤ پر لگی ہوئی ہے میں نے کہا جاتا ایک دن کی معمولی سی طاقت نے آپ کو آپ سے باہر کر دیا تھا انسان کو زمین پررہنا چاہیے آسمان سے کسی بھی وقت نیچے آسکتے ہیں۔ ایک مرتبہ وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس میں مجھے تاخیر ہوگئی میں نے سہیل صاحب کو فون کیا اور کہا کہ کچھ پوائنٹس بتا دیں میں خبر بنا لوں ۔ بڑے پن اور کھلے دل کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ انہوں نے مجھے پوری خبر فیکس کر دی کوئی رپورٹر اپنی خبر بہت کم کسی کو دیتے ہیںکینیڈا آنے سے پہلے دو اہم مسائل میں الجھ چکا تھا قدرت اور حالات کی طرف سے امتحان یہ گزر رہا تھا صرف اصغر شاد صاحب اور سہیل ناصر اس سے باخبر تھے سہیل صاحب نے میرے اس مسئلے کو حل کے لیے اپنے چند ذرائع سے بات چیت کی اور پھر کہنے لگے توصیف صاحب آپ مروت اور تکلف کے باعث مدد لینے سے گریزاں کیوں ہیں اگر مشکل وقت اور حالات کو بہتر نہ کرسکا تو پھر دوستی کا کیا فائدہ آپ صبح میرے ساتھ اسلام آباد ایف ایٹ کے علاقہ میں چلیں گے جہاں آپ کی ملاقات ایک عہدے دار سے کراؤں گا امید ہے آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا مگر وہی روایتی تکلف شرم مروت کے باعث میں ان کے ساتھ نہ جاسکا اور اپنے طورپر ہی معاملے کے حل کے لیے بھاگ دوڑ کرتا رہا۔میں جب وطن سے رخصت ہورہا تھا تو شاد صاحب اور سہیل عبدالناصر نے میرے لیے وقت نکالا اور ہم دیر تک اگلے قدم کے حوالے سے گفتگو کرتے رہے وہ مجھے حوصلہ دیتے رہے پردیس کی سختیوں اور آزمائش سے نمٹنے کی تلقین کرتے رہے چند سال بعد میں واپس وطن آیا تو اصغر شاد ‘ عبدالروف چوہدری‘ سہیل عبدالناصر اور دیگر دوستوں کو اپنے اوپر گزرنے والا حالات سے آگاہ کیا اب یہ تینوں دوست مٹی کی چادر اوڑھ کر سو گئے ہیں ۔
جن کے ساتھ طویل وقت گزارا ہے اب ان سے دوبارہ ملاقات نہ ہونے کا احساس مجھے شدید رنجیدہ کر دیتا ہے۔ شاد صاحب کے حوالہ سے تو میں نے پچاس سے زائد کالم لکھے تھے جنہیں کتابی شکل دے رہا ہوں مگر سہیل عبدالناصر کے حوالے سے مزید لکھنا دشوار ہے ایک اچھا دوست روشنی اور سائبان کی طرح ہوتا ہے یہ چراغ محبت بجھ جائیں تو اندھیرے بڑھ جاتے ہیں کتاب زیست کے اوراق تیزی سے پلٹتے جارہے ہیں دوستوں کی رخصت ہونے سے زخم اور گہرے ہوئے جاتے ہیں سوچتا ہوں وہ جگہ جہاں دوستوں کے قہقہے گونجتے تھے جہاں مسکراہٹیں اور خوشیاں نظر آتی تھیں اب وہاں صرف یادوں کو میلے لگتے ہوں گے ماضی کی یادوں کا بکھرا ہوا ملبہ نظر آئے گا جہاں ہم اکٹھے بیٹھتے تھے وہاں اب کوئی اور ہوگا مٹھی سے گرتی ہوئی ریت کی مانند دوستوں کی رخصتی دل پر بوجھ بنتی جارہی ہے۔ یہ مانوس گلی کوچے یہ گم گشتے دریچے کسی کی یاد اور کچھ چہرے میرے پیچھے اب یادوں کے چراغ جلیں گے وہ جو سیر شام دفاتر میں محفلیں دوستاں ہوا کرتی تھیں وہ مسکراہٹیں نظر نہیں آئیں گی فیس بک پر ان کی اپنے معصوم بچوں کے ساتھ تصاویر اور بچوں کی جانب سے والد کی محبت میں لکھے چند جملے میرے غم کو کئی گنا بڑھا دیتے ہیں پردیس میں دوستوں اپنوں کی جدائی سے بڑھ کر کوئی اور دکھ نہیں ہے اب یادوں کو سینے سے لگائے رکھنا اور دعائوں کی تسبیح بڑھائے رکھتا ہے۔