اجراء ڈگری، توہین عدالت کے مقدمات 10ہزرار سے بڑھ گئے 

لاہور (شہزادہ خالد) عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے لاہور سمیت صوبے بھر کی عدالتوں میں  توہین عدالت اور اجراء ڈگری کے مقدمات کی تعداد 10 ہزار سے تجاوز کر رکھی ہے جبکہ اعلیٰ عدالتوں کے 15 سو سے زائد فیصلوں پرعرصہ دراز سے عملدرآمد نہیں کیا جا رہا۔ صرف لاہور کی سیشن کورٹ میں توہین عدالت کی ایک ہزار درخواستیں زیر سماعت ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل توہین عدالت بہت بڑا جرم تھا لیکن آج توہین عدالت کو عام بات سمجھا جا رہا ہے۔ گذشتہ روز توہین عدالت کا ایک کیس ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں پیش ہوا جس میںجہاں زیب نامی شخص نے منشیات کے کیس سے بری ہو نے کے بعد عدالت کو اپنی گاڑی جو اے این ایف نے پکڑی تھی اس کے حصول کے لیے درخواست دی۔ عدالت نے ایس ایچ او اے این ایف کو طلب کیا لیکن ایس ایچ او دو تین  بار عدالت کے طلب کرنے کے باوجود پیش نہ ہوا۔ عدالت نے ایس ایچ او اسلام پورہ کے ذریعے طلب کیا۔ جس پر ایس ایچ او اے این ایف نے پیش ہوکر معذرت کر لی اور گاڑیاں واپس کر دیں۔ بتایا گیا ہے کہ سیشن کورٹ میں 22 اے اور 22 بی کی درخواستوں پر عدالت پرچے کا حکم دیتی ہے۔ ان میں اکثر پر عمل نہیں ہوتا، پھر درخواست گذار توہین عدالت کی درخواست دائر کر دیتا ہے۔ توہین عدالت کے زیادہ مقدمات جائیداد پرقبضے کے حوالے  زیر سماعت  ہیں۔ مدعی توہین عدالت یا اجراء ڈگری کی درخواست دائر کرتا ہے۔ جس میں زیادہ تر یہی لکھا جاتا ہے کہ حکم امتناعی کو ملزم نے پھاڑ دیا۔ عدالت میں توہین عدالت کی درخواست  دائر ہونے پر نوٹس جاری ہوتا ہے لیکن مقدمات کے ساتھ کام کی زیادتی کی وجہ سے یہ توہین عدالت کا نوٹس کھٹائی میں پڑ جاتا ہے۔  کیونکہ ایک ایک سول کورٹ میں روزانہ دو سے تین سو کے قریب مقدمات کی  لسٹ لگتی ہے۔آئینی و قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ  عدالتوں کی تعداد بڑھائی جائے اور توہین عدالت کی سزا چھ ماہ سے بڑھا کر زیادہ کر دی جائے یا جرمانہ اتنا ہو کہ آئندہ توہین کرنیوالا محتاط رہے۔

ای پیپر دی نیشن