اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) قومی اسمبلی کے بجٹ سیشن میں اپوزیشن لیڈر کی تقریر کے دوران ہنگامہ آرائی کا معاملہ طول پکڑ گیا اور متحدہ اپوزیشن نے ڈپٹی سپیکر کے بعد اب سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کر لیا۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ روز پارلیمنٹ ہائوس میں قائد حزب اختلاف اور چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کے درمیان اپوزیشن لیڈر کے چیمبر میں ملاقات ہوئی۔ ملاقات میں سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی تجویز پر غور کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق دونوں رہنمائوں کی جانب سے تجویز پر اصولی اتفاق کے بعد شہباز شریف نے اپوزیشن کی دیگر تمام جماعتوں کے ساتھ مشاورت کی ذمہ داری لیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کی دیگر تمام جماعتوں سے مشاورت کے بعد سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی۔ حکومتی ناراض ارکان سے بھی رابطے کئے جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق قائد حزب اختلاف اور بلاول بھٹو زرداری کی ملاقات کے بعد متحدہ اپوزیشن کے رہنمائوں کی ملاقات بھی ہوئی جس میں سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لئے کمیٹی تشکیل دینے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ اپوزیشن قائدین کا کہنا تھا کہ جمہوریت کی تاریخ میں گزشتہ روز سیاہ ترین دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ سپیکر آئینی، قانونی، جمہوری اور پارلیمانی ذمہ داریاں انجام دینے میں مکمل نا کام رہے۔ اپوزیشن قائدین نے کہا کہ سپیکر ہر رکن کا محافظ ہوتا ہے، اسد قیصر یہ فرض نبھانے کے اہل نہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن نے حکومت سے قومی اسمبلی واقعہ پر یکساں نمائندگی کے ساتھ پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ کل جو پارلیمان میں واقعہ ہوا یہ تاریخ کا سیاہ دن تھا۔ اس طوفاں بدتمیزی اور گالم گلوچ کی جتنی مذمت کی جائے، کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کو تماشہ بنا کر دکھایا گیا۔ ہم نے متحدہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر پلان تشکیل دیا ہے اور جلد لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ میں اپوزیشن چیمبر میں اس لئے آیا ہوں کہ تاریخ میں اس قسم کی حرکتیں کبھی نہیں ہوئیں۔ سپیکر کا رویہ افسوسناک تھا۔ وزیراعظم عمران خان ملک کی معیشت اور سیاست کو چلانے میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے، بلکہ بچوں کی طرح وزیروں کو ہدایات دے رہے ہیں۔ شہباز شریف قائد حزب اختلاف ہیں۔ ایوان میں ان کا مؤقف پوری اپوزیشن کا موقف ہوتا ہے۔ اگر شہباز شریف پر حملے ہوں گے اور وفاقی وزراء بجٹ کتابیں قائد حزب اختلاف پر پھینکیں گے تو یہ جمہوریت کے لئے برا ہو گا۔