مہنگائی کا طوفان۔’’ ابھی تو شروع ہواہے‘‘


وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ جب بھی رات کے بارہ بجے سے قبل پیٹرول اور ڈیزل وغیرہ کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کرنے کے لئے ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہوں تو ابتدائیہ میں عمران حکومت کو ہماری مشکلات کا ذمہ دار ٹھہرانے میں وقت ضائع نہ کریں۔میری درخواست کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میں گزشتہ حکومت کو ان دنوں شدید سے شدید تر ہوتے اقتصادی بحران کے تناظر میں بری الذمہ سمجھتا ہوں۔بنیادی مسئلہ ہمارے ہاں اندھی نفرت وعقیدت پر مبنی تقسیم ہے۔ویسے بھی عام پاکستانی کی نگاہ سے دیکھیں تو اسے رواں برس کے مارچ تک ’’ستے خیراں‘‘ والا ماحول نظر آرہا تھا۔ وہ سمجھ ہی نہیں پارہا کہ عمران حکومت کے فارغ ہوتے ہی ملک میں ایسی کون سی بلا نازل ہوگئی جس نے لوڈشیڈنگ کا بحران ’’اچانک‘‘ پیدا کردیا۔پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں آسمان کو چھونا شروع ہوگئیں۔
جو ’’بلا‘‘ نازل ہوئی ہے اس کی چاپ مجھ جیسے اقتصادی امور سے تقریباََ نابلد شخص نے مارچ کے آغاز ہی میں سن لی تھی۔اسی باعث فریاد کرتا رہا کہ عمران حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کرنے سے گریز کیا جائے۔اس سے نجات ہر صورت مقصود ہے تو خدارا تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد موجودہ قومی اسمبلی کی آئینی مدت مکمل کرنے کی حماقت سے گریز کیا جائے۔نئے انتخاب کی راہ بنے۔سیاسی جماعتیں انتخابی مہم چلاتے ہوئے ٹھوس معاشی حقائق کو عوام کے روبرو لاتے ہوئے یہ بتائیں کہ ان کے پاس سنگین تر ہوتے بحران سے نبرآزما ہونے کے لئے کونسا ’’نسخہ‘‘ موجود ہے۔
شہباز شریف اور ان کے چند مصاحبین کو تاہم اپنی ’’سپیڈ‘‘ اور انتظامی صلاحیتوں پر بہت مان تھا۔ دھڑلے سے حکومت سنبھال لی اور اب میرؔ کی طرح خوار ہوئے جارہے ہیں۔جس حقیقت کو حکومت سنبھالنے کی عجلت میں نظر انداز کردیا وہ عمران حکومت نہیں بلکہ ریاست پاکستان کا عالمی معیشت کے نگہبان ادارے یعنی آئی ایم ایف سے ہوا معاہدہ تھا۔اس معاہدے کی تفصیلات معاشی امور کے حوالے سے عقل کل تصور ہوتے ’’ٹینکوکریٹ‘‘ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے 2019ء میں طے کی تھیں۔ پاکستان نے چند کڑی شرائط پر ستمبر2022ء تک عمل کرتے ہوئے آئی ایم ایف سے مختلف اقساط میں 6بلین ڈالر حاصل کرنے کا بندوبست کیا۔
ہمارا اصل المیہ یہ ہے کہ جناتی انگریزی زبان میں میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی کو معاشی امور سمجھانے والے ’’دانشور‘‘ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی توجہ کے طالب رہے ہیں۔ حفیظ شیخ نے جو معاہدہ کیا اس کی ستائش میں دلائل کے انبار لگادئیے گئے۔ اصرار ہوا کہ ’’انقلابی اصلاحات‘‘ کئے بغیر پاکستان کی معیشت کو سنبھالنا اب ممکن نہیں رہا۔
روزمرہّ زندگی کا عذاب سہتے مجھ جیسے بدنصیب فریاد کرتے رہے کہ آئی ایم ایف سے جو معاہدہ ہوا ہے وہ امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر بنائے گا۔ متوسط طبقہ اس کی وجہ سے سکڑنا شروع ہوجائے گااور محدود کم آمدنی والے کنبوں کا جینا دو بھر ہوجائے گا۔
حفیظ شیخ کی جگہ تاہم شوکت ترین وزیر خزانہ ہوئے تو سینہ پھلا کر یقین دلاتے رہے کہ پاکستان کی معیشت نہ صر ف بحال ہوچکی ہے بلکہ خوش حالی کی راہ پر تیز قدم بھی اٹھانا شروع ہوگئی ہے۔انہوں نے یہ بھی یقین دلایا کہ ’’ترقی کی رفتار‘‘ برقرار رکھنے کے لئے بجلی کی قیمت کسی صورت نہیں بڑھائی جائے گی۔شوکت ترین نے جو خوش کن خاکہ کھینچا اس میں رنگ بھرنے کے لئے عمران حکومت کے ترجمانوں کی فوج ظفرموج ’’خوش حالی‘‘ کے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے بے تحاشہ داستانیں گھڑنا شروع ہوگئی۔ میڈیا پر کامل کنٹرول کی وجہ سے انہیں بروقت جھٹلایا نہ جاسکا۔ پارلیمان میں اپوزیشن کی نشستوں پر براجمان ’’ہمارے نمائندے‘‘ بھی ہمیں خبردار رکھنے کو اپنا فرض نہ نبھاسکے۔
آئی ایم ایف مگر سفاک ساہوکار کی طرح چوکنا رہا۔ تواتر سے یاد دہانی کرواتا رہا’’یہ کیا ہورہا ہے بھائی-یہ کیا ہورہا ہے‘‘۔آئی ایم ایف کو رام کرنے ترین صاحب واشنگٹن گئے تو وطن لوٹنے کے بعد ٹی وی سکرینوں پر حیرت سے اعتراف کرتے رہے کہ آئی ایم ایف کا رویہ ’’مخاصمانہ‘‘ ہوچکا ہے۔آپ کو اکتادینے کی حد تک میں تواتر سے یاد دلاتا رہا کہ امریکہ آئی ایم ایف کی فیصلہ سازی کے ضمن میں حتمی کردار ادا کرتا ہے۔آئی ایم ایف اگر ہم سے ’’مخاصمانہ‘‘ ہوچکا ہے تو اس کے اسباب تلاش کئے جائیں۔ میری دانست میں افغانستان سے امریکی افواج کی ذلت آمیز واپسی نے امریکہ کو ’’مخاصمانہ‘‘ بنادیا۔اپنی ذات کا بدلہ وہ پاکستان کے خلاف آئی ایم ایف کو سخت گیر رکھتے ہوئے لے رہا ہے۔ عمران خان صاحب کی وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد جو حکومت آئی ہے اس کی ’’اوقات‘‘ کا بھی اسے بخوبی علم ہے۔ہمارے ہاں ریاستی فیصلہ سازی کی حتمی قوتوں کو وہ ہم سے کہیں زیادہ جانتے ہیں۔ ’’سبق‘‘ درحقیقت ’’انہیں‘‘ سکھانا مقصود ہے۔ عمران یا شہباز حکومت اس تناظر میں ثانوی حیثیت کی حامل ہیں۔اس پہلو کو مگر ہمارا ’’آزاد و بے باک‘‘ میڈیا اجاگر کرنے کی جرأت سے محروم کردیا گیا ہے۔
روس کے یوکرین پر حملے نے ایک حوالے سے امریکی مخاصمت کے حقیقی اسباب سے توجہ بھی ہٹادی ہے۔اس کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل کا بحران نمودار ہوا۔انصاف کا تقاضہ تھا کہ عمران حکومت اس بحران کے روبرو اپنی محدودات کو جرأت وبہادری سے تسلیم کرتی۔عمران خان صاحب مگر جبلی طورپر بھانپ چکے تھے کہ ان کی فراغت کا بندوبست تیاری کے آخری مراحل میں ہے۔اچانک ٹی وی پر نمودار ہوئے اور پیٹرول کی قیمتوں کو منجمد کرنے کا اعلان کردیا۔ عوام سے مذکورہ اعلان کی بدولت واہ واہ کروائی اور اقتدار سے فارغ ہوجانے کے بعد ’’چور اور لٹیروں‘‘ کے علاوہ ’’میر جعفروں‘‘ کو بھی للکارنا شروع ہوگئے۔ان کی بیان کردہ ’’امریکی سازش‘‘ کے ذریعے قائم ہوئی ’’امپورٹڈ‘‘ حکومت کو سہار ا دینے کے لئے آئی ایم ایف اور اس کے سرپرست ممالک مگر ہرگز آمادہ نہیں ہیں۔عرب دنیا میں ہمارے ’’برادر‘‘ تصور ہوتے ممالک بھی یاد دلانا شروع ہوگئے کہ پاکستان کے پیٹرول پمپوں پر جن نرخوں پر پیٹرول اور ڈیزل بیچا جارہا ہے وہ تیل پیدا کرنے والے ممالک کے مقابلے میں بھی صارفین کو سستے داموں بیچاجارہا ہے۔روس پر اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے عرب ممالک میں پیدا ہوا تیل عالمی منڈی میں اب سونے کے بھائو بک رہا ہے۔ بازار میں منافع کی رونق لگی ہو تو سگے بھائی بھی آپ کی مشکلات سے غافل ہوجاتے ہیں۔
چند دن قبل ہمارے ایک وزیر خاموشی سے ایک خلیجی ملک گئے تھے۔ وہ ملک قدرتی گیس سے مالا مال ہے۔ہماری خواہش تھی کہ وہ ادھار پر ہمیں گیس کی وافر ترسیل کی امید دلائے۔ وہاں سے اطلاع مگر یہ ملی ہے کہ مذکورہ ملک کی گیس کو مختلف یورپی ملکوں نے 2025ء تک ’’بک‘‘ کرلیا ہے۔کسی اور کو گیس دینے کو اب اس ملک کے پاس ’’بلبلہ‘‘ بھی میسر نہیں ہے۔مختصراََ یوں کہہ لیں کہ پیٹرول کے بعد اب گیس کو بھی عالمی منڈی کے بھائو مطابق خرید کر پاکستان لانا ہوگا۔ آنے والے موسم سرما میں لہٰذا ہیٹر اور گیز رچلانے سے قبل میرے اور آپ جیسے پاکستانی کو سو بار سوچنا ہوگا۔ پیٹرول،گیس اور کوئلہ کے نرخوں میں اضافے کی وجہ سے بجلی کو بھی مزید مہنگا ہونا ہے۔مہنگائی کا طوفان گویا ’’ابھی تو‘‘ شروع ہوا ہے۔اس کا سارا دوش تاہم وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کے سر ہی جائے گا۔اس سے مفر ممکن ہی نہیں۔بہتر یہی تھا کہ اقتدار سنبھالنے سے گریز کرتے۔

ای پیپر دی نیشن