سید عبدالستارشاہ چشتی المعروف باچا جان صاحبؒ


 سر زمین پشاور کو اس حوالے سے خاص ممتاز  حیثیت حاصل ہے کہ یہاں کئی ممتاز روحانی شخصیات نے قدم رکھے کہ اہل علاقہ اور اہل شہر عر صہ دراز تک ان کے فیوض و بر کات سے مستفید ہو تے ہیں بلکہ تا قیا مت تک ہوتے رہیں گے ۔پشاور ایک قدیم شہر ہے ہمیشہ سے اللہ کے نیک بندوں سے آباد رہا ہے۔ اس کی ہر گلی محلے میں کسی صوفی بزرگ درویش کا مزار ضرور نظر آتا ہے۔جمعرات کے روز مزارات پر موم بتیاں اور اگربتیاں جلائی جاتی ہیں۔بیشتر مزارات پر منت مانگ کر مزار پر تالے بھی لگا دئیے جاتے ہیں۔اکثر مزارات پر تقسیم ہونے والے لنگر کو خوردہ کہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے ولیوں کی فہرست میں شامل پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک روحانی ممتاز شخصیت 17ذی الحجہ 1278ء ہجری کو ضلع ہزارہ مانسہرہ تحصیل بٹ گرام اور موضع میراںشریف کزو بلند کوٹ میں اللہ کے کامل درویش حضرت خواجہ سیدعبدالستار شاہ باچاجان چشتی نظامی نیازی قادری قدس اللہ سرہ العزیزی پیدا ہوئے۔ آپ سرکار کا سلسلہ نسب حضرت سید علی ترمذی ؒ کی واسطہ سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے۔بلند کوٹ حضرت باچا جانؒ کے بھانجے اور سجادہ نشین اول کا مسکن ہے۔ حضرت پیر باباؒ کی اولاد و ہزار کے پہاڑی علاقوں میں سکونت پذیر ہے۔عہد بچپن سے ہی طبیعت میں سخاوت، خاموشی، تنہائی اور عبادات الٰہی میں مشغول ہونا جیسے احسن اوصاف تھے۔ آپ نے ٹھیکہ داری کا پیشہ اختیار کیا اور اسی سلسلے میں ہندوستان کا رخ کیا۔ ویسے بھی آپ فرمایا کرتے تھے۔ کہ جنوبی ہندوستان سے مجھے اپنے مرشد کی خوشبو آتی ہے، اس سمت کئی بار آپ کو ادب سے جھک کر سلام کرتے ہوئے دیکھا گیا، ہندوستان میں کام کی وجہ سے وہاں سکونت اختیار کی، اور حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے مزار پاک پر اکثر حاضری دیتے تھے، اس سماں آپ کی کیفیت عجیب اور حالت غیر ہوجاتی تھی۔ یہ حالت روز بروز بڑھتی چلی گئی، درخواجہؒ پر حاضریوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ایک رات کے آخری حصہ میں مزار پاک پر حاضر تھے، آنکھوںسے اشک
 رواں تھے، اور عرض کی، یا خواجہ ؒ اس غریب کی جانب کب نگاہ کرم ہوگی؟کب مجھے اپنی باطنی نوازشات سے مستفید فرمائیں گے۔مجھے آپکی محبت کی قسم، آنکھوں سے چھلکتے ہوئے پیمانوں کی قسم آپ سے دوری مجھے سخت اذیت سے ہمکنار کرتی ہے۔ اور اگر دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر آپ کی خدمت حاضرہوتا ہوں۔ تو قلب و روح، مثل مرغ نیم بسمل تڑپتے ہیں، نہ دوری میں سکھ نہ قربت میں چین و قرار ، آخر یہ مسکین جائے تو کہاں جائے، کرے تو کیا کرے؟۔یہی سوالات کرتے کرتے ، ہچکیاں بھرتے آپ کی درخواجہؒ پر ہی آنکھ لگ گئی۔ خواب میں دیکھا کہ حضرت معین الدین چشتی ؒ تشریف فرما ہیں اور میری جانب محبت بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں، میرے بدن میں ایک بجلی سی کوند گئی، سارا جسم مثل شاخ بید لرزرہا تھا، مگر جو لذت و کیف و سرور اس وقت حاصل تھا وہ بیان سے باہر ہے۔ یہ قصہ آپ جب سناتے اس وقت بھی وجد سا آجاتا تھا۔نیز فرماتے کہ اس وقت حضرت خواجہ صاحب، سلطان ہندؒ نے ہم کو باطنی دوست سے فیض یاب فرمایا، جب آنکھ کھلی تو طبیعت میں ہلکا پن تھا۔ اور بہت خوش و شادمان، پرسکون تھا، ہندوستان میں ٹھیکیداری کے دوران جو دولت کمائی تھی، اس سے پورا کمرہ بھر پڑا تھا، اسی وقت وہ تمام دولت درگاہ خواجہ ؒ پر لاکر محتاجوں اور مساکین میں تقسیم کر دی اور پھر مستقل طور پر حضرت معین الدین چشتیؒ کے مزار پاک کے قریب ایک حجرے میں سکونت پذیر ہوگئے، ہر وقت عبادات الٰہی میں مشغول رہتے اور جب رات کا پچھلا پہر ہوتا مزار مقدس پر حاضری دے کر نہ جانے اپنے مرشد کامل سے کیا راز و نیاز کرتے ۔ اسی عالم میں سحر ہوجاتی تھی، یہ ہی سب آپ کے معمولات بن گئے اور یہاں ہی درویشی کی منازل طے کرنے لگے۔جب کبھی آپؒ حجرہ مبارک سے باہرتشریف لاتے تو آپ کا چہرہ مبارک مثل گلاب کھلا ہوا لگتا، اور قریب سے ایک مسحور کن مہک آتی تھی۔ پھر تقسیم ہند کا اعلان ہوگیا، تو حضرت عبدالستار شاہؒ کو سائیں محمد عظیم چشتیؒ سے خرقہ خلافت ملا اور پاکستان جانے کا حکم صادر ہوا۔ اس پر آپ نے پاکستان کا رخ کیا اور صوبہ سرحد کے شہر پشاور میں بازار ڈبگری کے وسط میں ایک مکان کرایہ پرلیا، اور مخلوق خدا کو رُشد و ہدایت فرمانے لگے۔ حضرت سائیں محمد عظیم چشتیؒ جو آپ کے مرشد تھے ان کے بارے میں آپ بہت سے ارشادات کے بارے میں فرمایا کرتے تھے ، کہ میں نے ان کی بہت خدمت کی، وہ ایک کامل درویش تھے، اور ایک شفیق مرشد کامل بھی تھے، جن کی نظر عنایت نے مجھ عاجز پر اپنی نوازشات کی بارش فرمائی۔تذکرئہ علمائومشائخ سرحد میں فقیر محمد امیر شاہ قادری گیلانی ؒ مولوی جی ،سید عبد الستار شاہ باچاؒ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ آپؒ ہر اسلامی مہینہ کی چٹھی تاریخ کو عام سماع کی محفل منعقد کرتے اور شب جمعہ کو توخصوصی مجلس سماع ہوا کرتی۔جبکہ آپ 23اور 24ذی الحجہ کی درمیانی شب کو جشن مناتے تھے۔اجمیر شریف میں زمانہ قدیم سے یہ قاعدہ تھا کہ سینکڑوں میل پیدل چل کر زائرین عرس کے موقع پر شمولیت اختیار کرتے۔ ان کے آنے کا یہ قاعدہ تھا کہ اپنے اپنے علاقوں سے ایک مقام پر جمع ہوتے۔ پھولوں کی چھڑیاں اور علم اٹھائے ہوئے 25جمادی الثانی کو اجمیر شریف میں اجتماعی طور پر داخل ہو کر علم مبارک آستانہ مبارک نصب کرتے ،ایک وقت ایسا آیا کہ یہ طریقہ ختم ہو چکاتھا مگر جناب سید عبدالستار شاہ باچاجان نے 1927ء میں پھر اس طریقہ کو رائج کیا۔اس کی یہ صورت تھی کہ جناب عزت مآب متولی صاحب کے مکان سے آپ نے یہ علم مبارک اُٹھایا اور بڑے تزک و احتشام کے ساتھ آستانہ مبارک کے دروازہ پر نصب کیا، 25توپوں کی سلامی دی گئی۔ پاکستان بننے تک تو حضور باچا جان صاحب ؒ خود یہ کام سرانجام دیتے رہے اور پاکستان بننے کے بعد آپ کے مریدین اس روایت کو نبھارہے ہیں۔حضرت باچا جانؒ نے حضرت نبی اکرم ؐکی شریعت کو قائم کیا اور زندگی بھراتباع رسول پر گامزن رہے اور لوگوں کو بھی اسوہ حسنہ پر چلنے کی تلقین فرماتے رہے، کئی غیر مسلموں کو مسلمان کیا اور ان گنت لوگوں کو درویشی کے مسلک میں رنگ دیا،حضرت عبدالستار شاہؒ نے 95سال کی عمر میں 20ذیقعد 1372ھ بمطابق 21جولائی 1954ء کو وصال پایا اور پشاور میں بیرون ڈبگری دروازہ آپ کا مزار ہے اور اس وقت سجادہ نشین سید محمد عبدالصمد شاہ باچاہیں۔آپ کی خانقاہ ’’خانقاہ ستاریہ‘‘ کے نام سے موسوم ہے جوکہ بیرون ڈبگری پشاور شہر میں واقع ہے۔ان کا عرس مبارک ہر سال 18سے20ذیقعد کو ہوتا ہے۔آپ کا مزار عقیدت مندوں کے لئے مرجع خلائق ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...