حکومتیں ٹیکس کے بغیر نہیں چلا کرتیں!


بجٹ پیش کر دیا گیا ہے ،ہر سال بجٹ پیش کیا جاتا ہے اور عوام اس بات کے منتظر ہوتے ہیں کہ انہیں شاید بجٹ میں کچھ ریلیف مل سکے لیکن ایسا نہیں ہو تا ،بلکہ ٹیکسز کا بوجھ عوام پر عائد کر دیا جاتا ہے ۔حکومتیں ریو نیو کے بغیر نہیں چلا کرتی ہیں اور ریونیو جمع کرنا حکومتوں کے لیے ایک مسئلہ ہے ،اس سا ل کا بجٹ اس لحاذ سے بہت مشکل تھا کہ آئی ایم ایف کی تلوار اس بجٹ پر لٹک رہی تھی اور ابھی بھی لٹک رہی ہے آئی ایم اف کو خوش کرنے کے لیے بجٹ میں کافی محنت کی گئی لیکن اطلا عات کے مطابق ابھی تک آئی ایم ایف پاکستان سے خوش نہیں ہے اور بجٹ میں مزید تبدیلیاں چاہتا ہے اور اس حوالے سے حکومت سے مطالبے کیے جا رہے ہیں ۔یہ ملک کے لیے یقینا ایک بہت مشکل وقت ہے اور اس مشکل وقت میں عوام صرف دعا ہی کرسکتے ہیں کہ بہتر انداز میں کوئی حل نکل آئے کیونکہ آئی ایم ایف سے قرض لینا بھی اس وقت حکومت کی مجبوری بن چکا ہے اور اس کے بغیر بھی ملک کی معاشی صورتحال دن بدن خراب ہوتی چلی جارہی ہے ۔اگر کہا جائے کہ ملک اس وقت ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہے تو غلط نہیں ہو گا ۔ہم اس ملک میں شروع سے ہی بلا واسطہ ٹیکسوں سے ہی کام چلا تے آئے ہیں اور ہمیں اس روش کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ،ہمیں براہ راست ٹیکسیشن کی جانب جانا ہو گا ،امیر لوگوں سے براہ راست ٹیکس لینے ہو ں گے اور اسی طریقہ سے ملک کو آگے لے کر جایا جاسکتا ہے ۔ایک ماچس کی ڈبیا پر ایک امیر اور ایک فریق ایک جتنا ٹیکس دیتے ہیں ۔اس صورتحال کو تبدیل کرنے کی ضروت ہے میں ذاتی طور پر ٹیکسٹائل صنعت سے وابستہ کئی لوگوں کو جانتا ہوں ،یہ لوگ ہر وقت حکومت سے کچھ نہ کچھ مطا لبہ کرتے رہتے ہیں
 ،حکومت سے بے شمار   مراعات لیتے ہیں ان کو ٹیکس کی چھوٹ سمیت بہت کچھ دیا جاتا ہے لیکن یہ سب لینے کے باوجود ملک کو کتنا فائدہ ہو تا ہے یہ دیکھنے کی بات ہے ۔اتنا سب کچھ لینے کے بعد ملک کو بھی کچھ دینا پڑتا ہے ،جو کہ یہ لوگ دینے میں ناکام رہتے ہیں اور ملک کے مسائل جوں کے توں چلتے رہتے ہیں ۔ملک کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے ہم اس ملک کے بنیادی مسائل کو حل نہیں کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ پینا ڈول کھا کر ہی مسائل کو حل کیا جائے ایسا نہیں ہو ا کرتا ہے ،توانا ئی کا شعبہ اور اس میں پا یا جانا والا سرکولر ڈیٹ ،اس ملک کے لیے وبال جان بنا ہو ا ہے ،اس ملک کا بجٹ اور تجارتی خسارے بھی کسی صورت قابو میں نہیں آتے ہیں ،اور یہی وجہ ہے کہ یہ ملک آگے جانے کی بجائے پیچھے کی جانب جا رہا ہے ۔اور اس ملک کے مسئلہ حل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں ۔اس ملک کی پیدا واری صلاحیت کو بڑھانے کی ضرورت ہے ۔اس کے بغیر یہ ملک آگے نہیں جائے گا ۔سستی توانائی ہی ایک بہتر معیشت کی بنیاد ہو تی ہے جو کہ ہمارے پاس موجود نہیں ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی آبادی کا مسئلہ بھی روز بروز سنگین ہو تا چلا جا رہا ہے ۔اس حوالے سے ہماری کو ئی توجہ نہیں ہے ۔اس ملک کی آبادی ہر سال ڈھائی فیصد تک بڑھ جاتی ہے ،جس کے باعث ہماری تعلیم ،صحت سمیت تمام سہولیات ناکافی پڑ جاتی ہیں ۔ہمیں اس کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ہم کچھ بھی کنٹرول نہیں کر سکیں گے ۔پاکستان اس وقت ایسے گھمبیر مسائل کے بھنور میں پھنس چکا ہے کہ اس سے نکلنا ،مشکل دیکھائی دے رہا ہے ۔ہمیں قومی سوچ کے تحت ملکی مسائل کے حل کی کوششیں کرنی چاہیے ،تب ہی ہم اس حوالے سے بہتر انداز میں آگے بڑھ سکتے ہیں ۔جہاں تک بجٹ کا تعلق ہے تو اس حوالے سے دیکھنا ہو گا کہ حکومت آئی ایم ایف کی خوشنودی کے لیے مزید کیا اقدامات کرتی ہے ،لیکن بہر حال بد قسمتی سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری قیادت ایک ناکام قیادت کا تاثر دے ری
 ہے ایک ایسی قیادت جو کہ اس ملک کے مسائل کو حل کرنے اور ملک کو بہتر انداز میں چلانے میں ناکام ہے ۔اس تاثر کو دور کرنے کی ضرورت ہے اور یہ تاثر اسی وقت دور ہو سکتا ہے کہ جب مسائل حل ہو ں اور ملک آگے کی جانب بڑھتا ہوا دیکھائی دے ۔پاکستان ایک 22کروڑ عوام کا ملک ہے اور ملک کے بارے میں یہ تاثر ہو نا کہ قرض کے بغیر یہ ملک چل نہیں سکتا ہے بہت ہی نامناسب ہے اور اس کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔اس ملک کو آگے لے کر چلنا ہمارا فرض ہے ،اور اس کے بغیر ہم کامیاب نہیں ہوں گے ۔ایک ناکام ریاست کا تصور جو کہ ہمارے بارے میں ابھر رہا ہے ،اس کو خاتمہ کرنا ہوگا ۔اس ملک کو کامیاب کرنا ہم سب کا فرض ہے اور ہم سب کو مل کر اس حوالے سے چلنے کی ضرورت ہے ۔حکومت کی نیت پر شک نہیں کیا جانا چاہیے ،ہمیں بطور قوم منفی تاثر کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔منفی سوچ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔یہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے ۔چاہے اس ملک میں جس کی بھی حکومت آجائے ،اب ہمیں مل کر کام کرنا ہو گا اس ملک کی معیشت اور بجٹ کو بہتر کرنے کے لیے سب کو تجاویز دینا ہو گی ،ملک کو ایک پا ئیدار معاشی ترقی کے راستے پر ڈالنا ہو گا اسی میں ہمارے ملک کی بہتری کی راہ نکل سکتی ہے ،اگر ہم سب اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد  بنا کر بیٹھے رہے گے تو افوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ملک کے مسائل میں اضافہ ہی ہو تا چلا جائے گا اور ملک ایک ایسی معاشی دلدل میں پھنس جائے گا جس سے نکلنا پھر ممکن نہیں رہے گا ۔پاکستان سر ی لنکا بننے کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے اور اس صورت حال سے بچنے کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے ۔یہ ملک ہمارے ابا و اجاداد نے بہت قربانیاں دے کر حاصل کیا تھا اور اب ہمارا فرض ہے کہ اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے اس ملک کو ایک بہتر ترقی یافتہ اور محفوظ ملک بنا کر جا ئیں ۔

ای پیپر دی نیشن