سپیکر پنجاب اسمبلی کے اختیارات  محدود کرنے کیلئے آرڈیننسوں کا اجراء

پنجاب حکومت نے سپیکر پنجاب اسمبلی کے اختیارات محدود کرکے صوبائی اسمبلی کو محکمہ قانون کے ماتحت کر دیا ہے۔ اس سلسلہ میں صوبائی اسمبلی کے رولز آف بزنس میں آرڈیننس کے ذریعے ترامیم کی گئی ہیں جو گزشتہ روز گورنر پنجاب کی جانب سے جاری کیا گیا۔ اس سلسلہ میں حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت نے سپیکر کے اختیارات انکے رویے کے باعث محدود کئے ہیں اور یہ فیصلہ بجٹ اجلاس پر سپیکر کی جانب سے پیدا کئے گئے آئینی بحران کی بنیاد پر کیا گیا۔ حکومت نے اس سلسلہ میں تین آرڈیننس جاری کئے ہیں جس کے بعد پنجاب اسمبلی کے انتظامی امور پنجاب حکومت کے پاس آگئے ہیں اور سیکرٹری اسمبلی کے اختیارات ختم کر دیئے گئے ہیں۔ صوبائی وزیر عطاء تارڑ کے بقول اجلاس کو نوٹیفائی اور ڈی نوٹیفائی کرنا اب سیکرٹری اسمبلی کے اختیار میں نہیں اور اجلاس بلانے کا نوٹیفکیشن اب صوبائی سیکرٹری قانون جاری کرینگے۔ 
پنجاب اسمبلی میں گزشتہ تین ماہ سے آئین و قانون سے کھلواڑ اور عدالتی فیصلوں سے انحراف کا جو کھیل جاری ہے اسے مستحسن قرار دیا جا سکتا ہے نہ یہ جمہوریت کی عملداری کا تقاضا ہے۔ بدقسمتی سے اسمبلی میں اس کھیل کا آغاز کسٹوڈین آف دی ہائوس کہلانے والے سپیکر پنجاب اسمبلی کی جانب سے کیا گیا جنہوں نے آئین و قانون کے تقاضے کے تحت اور عدالتی فیصلوں کی روشنی میں نہ وزیراعلیٰ کا انتخاب خوش اسلوبی سے ہونے دیا نہ وزیراعلیٰ کی حلف برداری کیلئے آئین و قانون کے تقاضے نبھائے اور اسکے برعکس پی ٹی آئی قیادت کا مہرہ بن کر اسمبلی میں ’’نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے‘‘ والی پالیسی اختیار کی جس کے باعث اسمبلی کا ماحول ہمہ وقت کشیدہ ہی رہا۔ سپیکر اور اپوزیشن بنچوں کی جانب سے یہی طرز عمل پنجاب اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے موقع پر بھی اختیار کیا گیا اور ہنگامہ کھڑا کرکے بجٹ پیش نہ ہونے دینے کی نوبت لائی جاتی رہی چنانچہ حکومت کو بجٹ پیش اور منظور کرانے کا لازمی آئینی تقاضا پورا کرنے کیلئے آرڈیننسوں کے ذریعے سپیکر کے اختیارات محدود کرنا پڑے۔ چونکہ اسمبلی کا اجلاس طلب اور برخواست کرنا گورنر کے دائرۂ اختیار میں ہے اس لئے گورنر پنجاب نے اپنا طلب کردہ اسمبلی کا اجلاس برخواست کرکے دوبارہ اجلاس ایوان اقبال میں طلب کرلیا جس پر سپیکر چودھری پرویز الٰہی نے الگ سے اسمبلی کا اجلاس بلالیا چنانچہ حکومت نے آرڈیننس جاری کراکے سپیکر کے اختیارات محدود کر دیئے۔ اگرچہ اسمبلی کے قواعد و ضوابط میں بھی کسی آرڈیننس کے ذریعے ترمیم قابل ستائش عمل نہیں ہے تاہم اس کیلئے خود سپیکر پنجاب اسمبلی نے حکومت کو مجبور کیا ہے۔ سیاسی قائدین کا ایسا ہی طرز عمل جمہوریت کی بساط لپیٹے جانے پر منتج ہوتا رہا ہے۔ پنجاب اسمبلی کے حوالے سے فریقین کو یہ سوچ بچار ضروری کرنی چاہیے کہ وہ اپنے طرز عمل سے جمہوریت اور عوام کی کیا خدمت کر رہے ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن