کان پک چکے ہیں یہ جملہ سنتے سنتے: ’’پاکستان بہت نازک دور سے گزر رہا ہے‘‘ اب کسی اہم شخصیت کے منہ سے جب ہم یہ فقرہ سنتے ہیں تو ہمارے اندر کوئی خوف یا اضطراب کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی۔ ہم اس فقرے کو روٹین کا حصہ یا تقریر میں جوش پیدا کرنے کا ایک ہتھیار سمجھتے ہوئے مسکرا دیتے ہیں۔ آج ہماری نظر میں اس فقرے کی اہمیت گڈریے کی اس بات سے زیادہ نہیں رہی جس میں وہ بار بار گاؤں والوں سے کہتا ہے کہ ’’شیر آیا … شیر آیا‘‘ شروع میں تو لوگ اس کی آواز پر اس کی مدد کو دوڑتے ہیں مگر پھر انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ یہ ایک غیر سنجیدہ بات ہے۔ اس تاثر کا اس وقت خوفناک نتیجہ نکلتا ہے جب ایک روز حقیقت میں شیر آجاتا ہے تو اس روز گاؤں کا کوئی بھی فرد گڈریئے کی آہ و پکار پر کان نہیں دھرتا اور شیر تسلی سے اس کی بکریوں پر ہاتھ صاف کرتا ہے‘‘۔ ملکی تباہی کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ اس بار ان صداؤں میں کچھ صداقت سی محسوس ہو رہی ہے۔ ہمارے معاشی حالات، بڑھتی ہوئی مہنگائی، گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر، درآمدات اور برآمدات میں فرق یعنی بگڑتا ہوا توازن ادائیگی۔ یہ سچ مچ خطرے کی نشاندہی کر رہا ہے۔ ہماری مدد کرنے والے ’’عالمی خدمتگاروں کے نخرے اور نت نئے مطالبات سنگینی میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں لیکن ہم کہیں سے خطرے کی بو سونگھتے اسے محسوس کرتے ہوئے اپنے آپ کو بچانے کے اقدامات کرنے کی بجائے گڈریے کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم حالات کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے سنجیدگی اختیار کریں اور خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے کندھے سے کندھا ملا کر صف آراء ہو جائیں۔ پاکستان جس معاشی اور اندرونی عدم استحکام کا شکار ہے اس کا فائدہ اٹھانے کے لئے دشمن بھی گھات لگا کر بیٹھا ہے جس کو منہ توڑ جواب دینے کے لئے ہماری مسلح افواج پوری طرح الرٹ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی قوت ہے۔ ہمارا میزائل سسٹم دنیا کا جدید ترین نظام ہے۔ ہماری فضائیہ جے ایف 17 اور ایف 16 جیسے جدید ترین طیاروں کے ساتھ دشمن کے دانت کھٹے کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں جس کا عملی ثبوت دشمن سمیت پوری دنیا گزشتہ سال دیکھ چکی ہے۔ ہماری بحریہ گہرے پانیوں میں دشمن کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہیں دو سال قبل دشمن کی آبدوز نے دو دفعہ دراندازی کی کوشش کی مگر اسے پاک پانیوں میں داخل ہونے سے پہلے ہی مار بھگایا گیا تھا۔ ہماری مسلح افواج کا ایک ایک سپاہی جدید ترین ہتھیاروں کے ساتھ جذبۂ ایمانی سے لیس ہے۔ وہ یہ شہادت کی آرزو لے کر میدان میں اترتے ہیں۔ دشمن کی ایک ایک جنبش پر گہری نظر رکھنے کے ساتھ پاک دھرتی پر ہونے والی قومی مفاد کیخلاف ہر سازش کو ناکام بنانے کے لئے بھی ہمہ وقت تیار رہنا بھی وقت کی ضرورت ہے مگر ہمیں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب اس ادارے کا ہر شعبہ اور ہر شخص ایک ہائی فائی مشین کی طرح منظم انداز میں کام کر رہا ہو اس ادارے میں کام کرنے والے ہر فرد کو اپنی ذمہ داریوں کا پوری طرح احساس ذمہ داری ہے اور سب سے بڑھ کر ان کے کام میں کوئی خلل نہ ڈالا جائے بلکہ اسی طرح جیسے ایک جدید ترین مشین بہت اچھا اور بہتر نتیجہ دے رہی ہو تو کوئی شرارتی اس کے کسی کل پرزے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرے تو اس کی کارکردگی متاثر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارا سکیورٹی کا ادارہ کوئی مشین تو نہیں مگر منظم انداز میں ایک سسٹم کے تحت کام کر رہا ہے اس میں کام کرنے والے جیتے جاگتے اور سوچ و احساس رکھنے والے انسان ہیں جو اردگرد کے ماحول سے متاثر ہوتے ہیں۔ بے جا تنقید انہیں دل گرفتہ کرتی ہے مگر انہوں نے اپنی ڈیوٹی سے کبھی منہ نہیں پھیرا، حوصلہ افزائی اور ستائش ان کے جذبے اور حوصلے جوان کرتی ہے۔ ہمارا سکیورٹی کا ادارہ اپنے سربراہی سے ایک سپاہی تک ایک ڈسپلن کا پابند ہوتا ہے۔آج کل کے عالمی حالات میں اس ادارے کی ذمہ داریاں پہلے کے مقابلے میں بہت بڑھ گئی ہیں۔ دشمن کسی نہ کسی طرف سے اور کسی نہ کسی روپ میں حملہ آور ہوتا رہتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ادارے کو اندرونی سکیورٹی کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ماضی میں پاکستان پر جب کبھی بُرا وقت آنے کا خدشہ پیدا ہوا تو مسلح افواج نے اس خطرے کا نہ صرف مقابلہ کیا بلکہ پوری فوج کو یکجا اور متحد بھی رکھا۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں کہ پاک فوج وطن عزیز کی ایک بائنڈنگ فورس ہے جس نے ہمیشہ ملک کے ہر طبقے، ہر مسلک، ہر مذہب اور ہر علاقے کے لوگوں کو ایک قوم بنا کر رکھنے کے لئے سرتوڑ کوشش کی ہے۔ پاک فوج کے موجودہ سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی ایک ایسی شخصیت کے مالک ہیں جنہوں نے ہمیشہ نہ صرف اپنے ادارے کو یکجان رکھا بلکہ ملک کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو ناکام بنایا۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ عالمی حالات کے باعث عسکری ادارے کی ذمہ داریاں دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں۔ اندرون ملک سیاسی حالات میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں میں ملکی سرحدوں کے محافظ ادارے کو بعض حلقوں اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی تو پاک فوج کے سربراہ نے انتہائی دانشمندانہ اور پیشہ ورانہ فیصلے کرتے ہوئے مسلح افواج کو سیاسی فیصلوں سے دور رکھنے کا اعلان کردیا۔ ان کا یہ فیصلہ اس وقت کے حکمران عمران خان کو ایک آنکھ نہ بھایا۔ انہوں نے پہلے تو آئی ایس آئی کے چیف کی تعیناتی پر تنازعہ کھڑا کیا پھر اپنے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے آنے والی عدم اعتماد کی تحریک میں مدد کرنے پر کھل کر ملکی دفاع کے ضامن ادارے پر الزامات کی بوچھاڑ کردی۔
سابق وزیراعظم اور ان کی جماعت نے پاک فوج کیخلاف ایک محاذ کھول دیا۔ مگر آفرین ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کے رفقاء انتہائی صبر و تحمل سے ایسی تنقید سن رہے ہیں جو اس سے پہلے صرف دشمن ملک کیا کرتا تھا۔ پاکستان کے دشمنوں کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج کو کمزور کیا جائے اس کے لئے سب سے موثر ہتھیار یا ہتھکنڈا یہی خیال کیا جاتا تھا کہ عوام کے ذہنوں میں پاک فوج کے خلاف زہر بھرا جائے اور غلط فہمیاں پیدا کی جائیں۔ دوسرا ہتھکنڈا یہی رہا ہے کہ کسی طرح سے ادارے کے اندر نفاق یا تفریق کا تاثر ابھارا جائے۔ ہمیں بہت فخر رہا ہے کہ دشمن آج تک اس کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکا مگر اب ملک کے اندر سے دشمن کی زبان بولی جا رہی ہے مگر ہمیں یقین ہے کہ پاک فوج کی قیادت تحمل اور بردباری سے ایسے الزامات لگانے والوں کے خیالات تبدیل کر دے گی انہیں بہت جلد یقین ہو جائے گا کہ انہیں گمراہ کیا جاتا ہے۔بے شک جنرل قمر جاوید باجوہ کو نے آئین کے مطابق چلنے کو ترجیح دی اور تمام تر تنقید کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ انہوں نے مسلح افواج کو ملکی دفاع اور اندرونی و بیرونی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے یکسو کیا ہے۔ ہمیں یہ بھی امید ہے کہ پاکستان کی اتحادی حکومت ملک کو درپیش معاشی بحران سے نکالنے میں کامیاب ہوگی جس سے نہ صرف عوام کو جینے کا حق ملے گا بلکہ ان کے بنیادی حقوق کا بھی بھرپور تحفظ ممکن ہوگا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار واضح کر چکے ہیں کہ جنرل باجوہ مزید ایکسٹینشن لینے کا قطعاً ارادہ نہیں رکھتے تو پھر ایسی افواہیں کون اڑا رہا ہے ایسے سازشی عناصر قرارواقعی سزا ملنی چاہئے تاکہ دشمن ملک بھارت کا ایجنڈا پاکستان میں بیٹھ کر کوئی پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔