اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ آف پاکستان میں پنجاب انتخابات اور ریویو اینڈ ججمنٹ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ ہمارے سامنے انصاف کا ٹیسٹ ہے، سوال یہ ہے کہ نظر ثانی کس بنیاد پر ہونی چاہیے۔ ہم 184/3 کے خلاف کسی بھی ریمیڈی کو ویلکم کریں گے۔ نظرثانی میں کیس دوبارہ سنا جائے یہ بنیادی اصول کے منافی ہے۔ بھارتی قانون میں بھی یہی ہے، اپیل میں کیس کو دوبارہ سنا جاتا ہے، ہمیں اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔ ہم 184(3) کےخلاف کسی بھی ریمیڈی کو ویلکم کریں گے، لیکن اگر اس کو احتیاط کے ساتھ کیا جائے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ مزید کتنا وقت لیں گے، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عدالت کا زیادہ وقت نہیں لوں گا۔ اس سے قبل جب سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل اور وکیل الیکشن کمشن روسٹرم پر آئے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر دلائل کی استدعا کی۔ وکیل نے کہا کہ ریویو ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر 10 منٹ دلائل کا موقع دیا جائے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ کو تو بطور مہمان کم بلاتے ہیں، ابھی بیٹھیں اٹارنی جنرل کو دلائل مکمل کرنے دیں۔ اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ آئین میں آرٹیکل 199 کے تحت ہائیکورٹس کو بھی اختیار دیا گیا، آرٹیکل 199 کیخلاف درخواست پر انٹرا کورٹ اپیل کا حق ہے، سپریم کورٹ کا آرٹیکل 184/3 کا دائرہ وسیع ہے، اس آرٹیکل کا اختیار مفاد عامہ سے متعلق ہے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ نظرثانی میں اپیل ہو سکتی ہے، نظرثانی میں اپیل کو سمجھنا ہی اصل معاملہ ہے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وسیع دائرہ کار پر فریقین کو عدالت کو قائل کرنے کا موقع ملے گا، سنگین غداری کیس میں بھی اپیل براہ راست سپریم کورٹ آتی ہے، ان تمام اپیلوں کا ہائی کورٹ سے تعلق نہیں بنتا، قانون کے مطابق اپیل کا حق دیا گیا ہے، نئے قانون میں اپیل کو نظر ثانی کا درجہ دیا گیا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ نیا قانون خود کہہ رہا ہے کہ اپیل نہیں بلکہ نظر ثانی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بادی النظر میں قانون کہتا ہے اپیل اور نظرثانی میں فرق نہیں ہے۔ جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے مزید ریمارکس دیے کہ آپ کی بات اپنے ہی دلائل سے متضاد ہو رہی ہے، سمجھنا چاہتا ہوں آپ کا پوائنٹ کیا ہے، اپیل اور نظرثانی میں زیر غور معاملہ الگ الگ ہوتا ہے، فیصلے کےخلاف اپیل الگ چیز ہے اور نظرثانی کا دائرہ اختیار الگ ہے۔ سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 19جون تک ملتوی کردی۔