آئی ایم ایف کی سختیاں، آذربائیجان کے ساتھ معاہدہ اور ہمارے سیاسی رویے!!!!

آئی ایم ایف سے پاکستان کے معاملات ابھی تک طے نہیں ہو سکے گذشتہ برس یہ کہا جا رہا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اگست ستمبر تک معاہدہ ہو جائے گا اور قرض ملنے کے بعد پاکستان میں عدم استحکام کی کیفیت ختم ہوتی چلی جائے گی گذشتہ سال ستمبر تو دور کی بات اب تو بات 2023 کے ستمبر کی طرف جا رہی ہے۔ آدھا جون گذر چکا ہے ہم جولائی کی طرف بڑھ رہے ہیں، نئے مالی سال کا بجٹ بھی آ چکا ہے اور عالمی مالیاتی ادارے کی طرف سے بجٹ پر تحفظات کا اعتراض بھی کیا گیا ہے ان حالات میں آئی ایم ایف معاہدے کے حوالے سے گومگوں کی کیفیت آج بھی برقرار ہے، ابہام ہے، وضاحت نہیں ہے، نہ ہی کوئی ایسی چیز ہے جسے دیکھ کر یہ کہا جا سکے کہ واقعی بات چیت اس مرحلے میں ہے جہاں آئندہ چند گھنٹوں یا چند روز میں معاہدہ ہو جائے گا۔ جب میں سائرن لکھ رہا ہوں اور جب آپ ان سطور کا مطالعہ کر رہے ہوں گے اس وقت تک کوئی چیز وثوق کے ساتھ نہیں کی جا سکتی۔ غیر یقینی کی کیفیت برقرار رہے گی۔ اس غیر یقینی کی کیفیت نے پاکستان کی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ روپیہ بے پناہ کمزور اور ڈالر طاقتور ہوا ہے۔ ڈالر کی یہ پرواز غیر حقیقی ہے لیکن اس دوران مہنگائی کی وجہ سے جو حالت ہماری ہوئی ہے اس نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ کیا ان حالات میں ترقی ہو سکتی ہے جب ایک روٹی بیس سے تیس روپے میں ملتی ہو۔ وہ رقم جس میں مزدور بآسانی ایک وقت کا کھانا کھا لیتا تھا آج اتنے پیسوں میں صرف ایک روٹی خریدی جاتی ہے۔ یہ قیمتیں غیر حقیقی ہیں، جتنے پیسوں میں موٹر سائیکل چلانے والا پورا ہفتہ گذارتا تھا آج ایک دن گذارنا مشکل ہو چکا ہے۔ یہی حالات دیگر شعبوں میں بھی نظر آتے ہیں۔ سو یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ پاکستان کو شدید معاشی مسائل کا سامنا ہے اور ان حالات میں آئی ایم ایف کی طرف سے تاخیری حربے یہ ضرور ثابت کرتے ہیں کہ خرابی صرف ہمارے انداز حکمرانی میں ہی نہیں ہے جنہوں نے قرض دینا ہے اور دنیا بھر کے ممالک کو قرض دیتے ہیں وہ بھی شفافیت کے ساتھ کام نہیں کر رہے وہ بھی کسی نہ کسی کھیل کا حصہ ضرور ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو اعتراف کرنا پڑا ہے کہ پاکستان کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ ویسے یہ کوئی نئی یا انہونی بات نہیں ہے۔ پاکستان کے خلاف ہر وقت سازش ہوتی رہتی ہے۔ کبھی بیرونی طاقتیں سازشیں کرتی ہیں تو کبھی ہم اندرونی طور پر سازشوں کا شکار ہوتے ہیں۔ 
وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کہتے ہیں کہ " مخالف بیرونی قوتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان سری لنکا بن جائے اور پھر عالمی مالیاتی فنڈ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرے۔ ہمارے خلاف جیو پولیٹکس ہو رہی ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے، سٹیٹ بینک ایکٹ میں کی گئی ترامیم ناقابل برداشت ہیں۔پاکستان خودمختار ملک ہے ہم آئی ایم ایف کی ہر بات نہیں مان سکتے، آئی ایم ایف کے کہنے پر نوجوانوں کو آئی ٹی میں رعایت دینے پر پابندی عائد نہیں کر سکتے۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے ہم کسی شعبے میں بالکل ٹیکس استثنیٰ نہ دیں، بطور خودمختار ملک ہمیں اتنا حق تو ہونا چاہیے کہ کچھ ٹیکس چھوٹ دیں۔"
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے خلاف سازش ہو رہی ہے تو اس سازش کا توڑ کرنے کے لیے ہم کیا کر رہے ہیں۔ ہمارے سیاستدان تو آج بھی گتھم گتھا ہیں۔ میئر کراچی کے انتخابات کو ہی دیکھ لیں جو طوفان بدتمیزی وہاں ہوا ہے کیا کوئی ہمیں سنجیدہ لے گا۔ ایک ایسا شہر جسے ملک کا معاشی مرکز کہا جاتا ہے وہاں میئر کے الیکشن کو اتنا متنازع بنا دیا جائے تو دنیا کو کیا پیغام جائے گا کہ ہم کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں کر سکتے۔ کیا پاکستان اب بھی ایسے جھگڑوں کو برداشت کر سکتا ہے۔ 
پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے دوسری طرف جماعت اسلامی بھی کوئی نئی سیاسی جماعت تو نہیں ہے لیکن اس کے باوجود میئر کراچی کے انتخابات میں جو کچھ ہوا ہے وہ ثابت کرتا ہے کہ ہمارے سیاست دان آج بھی سیاسی طور پر نابالغ ہیں۔ کراچی کی سڑکیں میدان جنگ کا منظر پیش کر رہی تھیں۔ ڈنڈے سوٹے چل رہے ہیں، پتھراو¿ ہو رہا ہے۔ الزامات لگ رہے ہیں، پاکستان تحریک انصاف کے لوگوں کی حمایت پر لڑائی ہو رہی ہے۔ کیا اس وقت پی ٹی آئی کے لوگ سیاسی طور پر اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ کسی کی حمایت کر سکیں۔ وہ تو خود ہر طرف سے اپنی حمایت کھو چکے ہیں۔ ایک ایسی سیاسی جماعت جو ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچائے، شہداءکی بے حرمتی کرے، دفاعی اداروں پر حملہ آور ہو، قومی املاک کو نقصان پہنچائے، ملک میں آگ لگا دے کیا کسی بھی سیاسی جماعت کو اس کے لوگوں سے موجودہ حالات میں سیاسی اتحاد کرنا چاہیے ۔ تحریک انصاف کے لوگ اگر ملک کی خدمت کا اتنا ہی جذبہ رکھتے تھے تو جب ہر جگہ وہ حکومت میں تھے یہ کام اس وقت کیوں نہ کر سکے۔ بہرحال ہمیں ملک کی بہتری، ترقی اور معاشی استحکام کے لیے سیاسی اختلافات کو بھلانا ہو گا۔ جب تک ہم کسی کو کام کرنے کا موقع اور وقت نہیں دیں گے اور کسی بھی سیاسی جماعت کا پوسٹ مارٹم خالصتا اس کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے نہیں کریں گے ۔ سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لیے الزامات کی سیاست ترک نہیں کریں گے۔ ترقی کے خواب کو تعبیر نہیں مل سکتی۔ ابھی تحریک انصاف کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ انہیں بے معنی بیانات اور الزامات سے ماسوائے شرمندگی، خفت، سیاسی تنہائی اور مقدمات کے کیا حاصل ہوا ہے۔ دیگر سیاسی جماعتوں کو سبق سیکھنا چاہیے۔
ایک طرف ہم تین ارب ڈالر کے لیے آئی ایم ایف کی ہر جائز ناجائز بات ماننے کو تیار ہیں دوسری طرف ہم اپنی اصلاح بھی نہیں کرنا چاہتے۔ کیا ہم ایسے آگے بڑھ سکتے ہیں، یقینا نہیں۔ قرضوں کے جال سے نکلنے کے لیے اپنی اصلاح کرنا ہو گی۔ معاشی استحکام کے بغیر دنیا میں کوئی ہماری بات نہیں سنے گا نہ ہی کوئی ہماری بات مانے گا اس لیے بہتر ہے کہ ہم اپنے طرز سیاست پر نظر ثانی کریں۔ 
پاکستان اور آذر بائیجان کے درمیان ایل این جی کی فراہمی سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق ہوا ہے۔پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق ہوا ہے۔ آذربائیجان کی آذر ائیر لائن اسلام آباد اور کراچی کے لیے دو پروازیں چلائے گی۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف کے مطابق آذربائیجان کو چاول کی برآمد میں اضافہ چاہتے ہیں، امید ہے پاکستانی باسمتی چاول باکو میں بھی دستیاب ہوں گے جبکہ آذربائیجان کے صدر کہتے ہیں کہ دفاعی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے مشترکہ مشقوں میں اضافہ کیا جائے گا۔
دوسری جانب وزیراعظم ہاو¿س کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ آذربائیجان سے اگلے ماہ سے رعایتی ایل این جی کارگو پاکستان آنا شروع ہو جائیں گے، کابینہ نے آذربائیجان سے ایل این جی پاکستان لانےکی منظوری دے دی ہے۔اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف گزشتہ چھ ماہ سے اس ڈیل پر کام کر رہے تھے، آذربائیجان کی قومی ایل این جی کمپنی ہر ماہ رعایتی قیمت پر ایک ایل این جی کارگو پاکستان بھجوائے گی۔ پاکستان کو ایسے طویل المدتی معاہدوں کی ضرورت ہے۔ ایسے معاہدے خوش آئند ہیں۔ پاکستان کو توانائی کے متبادل ذرائع پر کام کرنے اور خطے کے ممالک کے ساتھ بہتر تجارتی تعلقات قائم کرنا ہوں گے ۔ پاکستان روس کے ساتھ تعلقات کو نئی سطح پر لے کر جا رہا ہے اسی طرح ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات سے بھی پاکستان کی معیشت کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ امریکہ اور ایران کے مذاکرات بھی چل رہے ہیں۔ ان حالات میں حکومت کو پاکستان کے بہتر مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلوں کی ضرورت ہے۔
آخر میں شہزاد احمد کا کلام
نہ سہی کچھ مگر اتنا تو کیا کرتے تھے 
وہ مجھے دیکھ کے پہچان لیا کرتے تھے 
آخر کار ہوئے تیری رضا کے پابند 
ہم کہ ہر بات پہ اصرار کیا کرتے تھے
خاک ہیں اب تری گلیوں کی وہ عزت والے
جو ترے شہر کا پانی نہ پیا کرتے تھے 
اب تو انسان کی عظمت بھی کوئی چیز نہیں
لوگ پتھر کو خدا مان لیا کرتے تھے 
دوستو اب مجھے گردن زدنی کہتے ہو
تم وہی ہو کہ مرے زخم سیا کرتے تھے 
ہم جو دستک کبھی دیتے تھے صبا کی مانند
آپ دروازہ دل کھول دیا کرتے تھے 
اب تو شہزاد ستاروں پہ لگی ہیں نظریں
کبھی ہم لوگ بھی مٹی میں جیا کرتے تھے

ای پیپر دی نیشن