معاشی محاذ پر خوش خبری

پاکستان اس وقت معاشی مشکلات کا شکار ہے لیکن قومیں ہمیشہ مشکل سے نکل کر ہی آسانی کی جانب گامزن ہوتی ہیں اور یہ سب کچھ لکھنے میں یا پڑھنے میں بڑا آسان دکھائی دیتا ہے لیکن اس میں بڑے کٹھن مراحل آتے ہیں لیکن اس کے بعد اچھی خبریں بھی آتی ہیں۔جیسا کہ پاکستان کے لیے بھی اچھی خبریں ہیں جیسا کہ روس سے سستا تیل آ رہا ہے اور اس کے ساتھ ایران کے ساتھ پاکستان کا بجلی کا معاہدہ ہو چکا ہے اور گوادر میں اس کی ترسیل بھی شروع ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ تاپی گیس پائپ لائن معاہدہ بھی اب تکمیل کی جانب گامزن ہو گا۔روس سے سستے تیل کی بات کریں تو یہ پاکستان کو عالمی منڈی سے تقریباً پندرہ ڈالر سستا مل رہا ہے اور پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پاکستان نے روسی تیل خریدنے کے لیے جو ادائیگی کی ہے وہ چین کی کرنسی یوان میں ادا کی ہے جوظاہر کرتا ہے کہ پاکستان اب علاقائی ممالک سے اور پھر روس اور چین جیسی دو بڑی طاقتوں کے ساتھ مل کر ملکی حالات کو گرداب سے نکالنے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
روسی تیل کی بات کریں توروس کی جانب سے پاکستان کو سپلائی کیے جانے والے خام تیل کی پہلی کھیپ کراچی کے ساحل پر لنگر انداز ہو چکی ہے۔ وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک نے روس سے سستے تیل کی درآمد کی تصدیق کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ جلد ہی آذربائیجان سے سستی گیس (ایل این جی) بھی پاکستان آنا شروع ہو جائے گی۔ روسی تیل پاکستان میں تیل کی ترسیل کا بیس سے تیس فیصد کے درمیان ہو گا اور امید کی جا رہی ہے ہے کہ صارفین کو سستے تیل کی فراہمی سے کچھ نہ کچھ ریلیف ضرور ملے گا۔پھر سب سے بڑی بات امریکہ جیسی سپر پاور کی مخالفت کا شور مچایا جاتا تھا اب تو امریکہ نے بھی روسی تیل کے حوالے سے مخالفت کر رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ہر ملک کی اپنی پالیسی ہے اور وہ اپنی ضرورت کے مطابق روس سے سستا تیل خرید سکتا ہے۔ 
دوسری جانب، پاکستانی وزیراعظم شہبا شریف نے آذرنائیجان کے ساتھ مختلف معاہدے کر لیے ہیں جو کہ خوش آئند بات ہے اور سب سے اہم معاہدہ سستی ایل این جی کی فراہمی کا ہے کیوں کہ پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان میں صنعتی اور گھریلو گیس کی کمی دیکھنے کو ملی ہے اس کے بعد آذر بائیجان کے ساتھ اس معاہدہ سے یقینا گیس کی صنعتوں کو فراہمی شروع ہو گی جس سے معیشت کا پہیہ رواں دواں ہو گا اور جو ایک جمود طاری ہے وہ بھی ختم ہو گا۔ اس سے قبل پاکستان نے ایک اور اہم معاہدہ کیا تھا جسے بارٹر معاہدہ کہا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے بات کریں توپاکستان کی وزارتِ تجارت نے رواں ماہ کے اوائل میں افغانستان، ایران اور روس کے ساتھ مال کے بدلے مال کی تجارت کی منظوری کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔
بارٹر ٹریڈ کے تحت پاکستان 26 قسم کی اشیاءمذکورہ تین ملکوں کو برآمد کر سکتا ہے جبکہ ایران، روس اور افغانستان سے ڈالرز میں ادائیگی کے بغیر دیگر اشیاءکے علاوہ گیس، پٹرولیم مصنوعات اور کوئلہ درآمد کر سکے گا۔ وزارت تجارت نے اپنے اعلامیے میں 26 قسم کی تجارتی اشیاءکی فہرست دی ہے جو بارٹر ٹریڈ کے ذریعے ایران، افغانستان اور روس کو برآمد کی جا سکتی ہیں۔ ان اشیاءمیں چاول، گوشت، دوا سازی کی مصنوعات، چمڑے کی مصنوعات، الیکٹرک پنکھے، گھریلو سامان، ٹیکسٹائل، جراحی کے آلات، برقی آلات، موٹرسائیکلیں اور ٹریکٹر بھی شامل ہیں۔
بارٹر ٹریڈ اگرچہ صدیوں پرانا طریقہ تجارت ہے جس میں جنس کے بدلے جنس کی تجارت ہوتی ہے جیسے پاکستان اگر افغانستان کو گندم بیچتا ہے تو اس کے بدلے افغانستان اپنی کوئی معدنیات اتنی قیمت کی پاکستان کو دے سکتا ہے، یا پاکستان اگر روس سے تیل خریدتا ہے تو بدلے میں پاکستان روس کو نمک، کپاس اور پھل بیچ سکتا ہے۔ اس تجارت کا یہ فائدہ ہو گا کہ پاکستان میں پاکستان کو جو ڈالرز کی کمی کا سامنا رہتا ہے اس میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔
 ماہرین معاشیات کا ماننا ہے کہ اگرچہ یہ ابھی ابتدائی ماڈل ہے لیکن اگر اس معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عمل ہو جائے تو پاکستان ائی ایم ایف کے چنگل سے بھی بچ سکتا ہے اور اس کے علاوہ پاکستان پر جو دیوالیہ ہونے کی تلوار لٹک رہی ہے وہ بھی ختم ہو سکتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، ا س سے قبل دسمبر2021ءمیں پاک ایران تجارت کو بارٹر سسٹم پر منتقل کرنے کا معاہدہ ہوا تھا تاکہ مال کے بدلے مال کی تجارت کے طریقہ کار کو لاگو کیا جا سکے۔ پاکستانی وزارت تجارت کے مطابق روس، ایران اور افغانستان سے پاکستان جو اشیا حاصل کر سکے گا ان میں تیل، گیس، خشک میوہ جات، کھاد، مشینری وغیرہ شامل ہے۔ 
دوسری طرف، پاکستان سے دودھ، کریم، انڈے سیریل ایکسپورٹ کیے جا سکیں گے۔ وزارت تجارت حکام کے مطابق گوشت، مچھلی کی مصنوعات،پھل، سبزیاں، چاول، بیکری آئٹمز، نمک،آئل،پرفیوم اور کاسمیٹکس،کیمیکلز، پلاسٹک، ربڑ، چمڑا، لکڑی کی مصنوعات، پیپر، فٹ ویئر، لوہا، اسٹیل، تانبا، ایلومینئم،کٹلری بھی ایکسپورٹ کی جا سکیں گی۔پاکستان الیکٹرک فین، ہوم ایمپلائنسز، موٹر سائیکلز،سرجیکل آلات اور کھیلوں کا سامان بھی ایکسپورٹ کیا جائے گا جبکہ روس سے بارٹر سسٹم کے تحت گندم، دالیں، پٹرولیم مصنوعات،کھاد اور ٹیکسٹائل مشینری بھی درآمد کی جائے گی اوراسی طرح ہمسایہ ملکوں سے آئل سیڈز، منرل، کاٹن بھی امپورٹ کی جاسکے گی۔ان تمام معاشی معاہدوں پر اس کی روح کے مطابق عمل ہو گیا تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان اس مشکل معاشی بحران سے نہ صرف نجات حاصل کر لے گا بلکہ اقوام عالم میں ایک نمایاں معاشی مقام کا حامل ملک بھی بن سکتا ہے۔
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن