پاکستان کی سیاست میں مائنس ون اور پلس ون کا فارمولہ بہت پرانا ہے- اگر قائد اعظم چند برس اور زندہ رہتے تو شاید ان کو بھی سیاست سے مائنس کر دیا جاتا- لیاقت علی خان ذوالفقار علی بھٹو اور بےنظیر بھٹو کو اقتدار کی مصلحتوں کے لیے سیاست سے مائنس کیا گیا- آجکل عمران خان کو مائنس اور میاں نواز شریف کو پلس کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے- 9 مئی کے افسوس ناک واقعات کی بنیاد پر اب عمران خان کو مائنس کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ مزاحمتی سیاست کے ہیرو عمران خان ٹریپ ہو گئے-ان پر قاتلانہ حملہ انتباہ تھا مگر وہ ڈٹ کر کھڑے رہے- اب عمران خان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلانے کے لیے ملٹری کورٹ تشکیل دی جائے گی- کور کمانڈر کانفرنس کا انتہائی سخت غیر معمولی اعلامیہ اور قومی اسمبلی کی قرارداد سے یہی واضح عندیہ مل رہا ہے- اگر پلان کے مطابق عمران خان کو سزا دے کر نااہل قرار بھی دے دیا جائے تو ان کے ووٹ بنک پر کوئی فرق نہیں پڑے گا ملٹری کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی جائے گی-
عمران خان کو مظلومیت اور ہمدردی کا عنصر عوام میں مزید مقبول بنائے گا- عمران خان کی مخالف سیاسی جماعتوں کے لیے آزادی سے انتخابی مہم چلانا آسان نہیں ہو گا-اتحادی حکومت کی کوشش ہوگی کہ انتخابات اکتوبر کی بجائے چھ ماہ آگے کر دیے جائیں تاکہ عمران خان کے خلاف مقدمے کی کاروائی مکمل کی جا سکے- پی ٹی آئی کے ورکر غصے اور اشتعال میں ہیں۔ ان کا غصہ ووٹ کے ذریعے ہی کم کیا جا سکتا ہے- وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کے ترجمان کے طور پر منظر پر آئے ہیں-
میاں جاوید لطیف نے ایک پریس بریفنگ میں دو مطالبات پیش کیے ہیں- اگلے انتخابات کے انعقاد سے پہلے ان کرداروں کو بے نقاب کیا جائے جنہوں نے سازشی کردار ادا کرکے 2017 میں میاں نواز شریف کو تا حیات نااہل قرار دیا- اس نا اہلی کو کالعدم قرار دیا جائے تا کہ مسلم لیگ نون کو لیول پلینگ فیلڈ مل سکے- انہوں نے کہا 9 مئی کے سانحہ کے ماسٹر مائنڈ کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے -
میاں جاوید لطیف نے انتباہ کیا کہ اگر سانحہ 9 مئی کے ذمے داران کو واشنگ مشین میں ڈال کر ڈرائی کلین کرنے کی کوشش کی گئی تو پاکستان کا سیاسی معاشی بحران مزید پیچیدہ ہو جائے گا - انہوں نے کہا کہ ان عناصر کو بھی بے نقاب کیا جائے جو ملی بھگت کرکے 2018 میں عمران خان کو اقتدار میں لے کر آئے -انہوں نے کہا کہ وہ کسی سیاسی جماعت پر پابندی کے حق میں نہیں ہیں البتہ سیاستدانوں اور دہشت گردوں کے درمیان لکیر کھینچنا لازم ہے- حیران کن امر یہ ہے کہ پاکستان کے قومی لیڈر آپس میں مزاکرات کرکے سیاسی مسائل حل کرنے کی بجائے ریاستی اداروں کی جانب دیکھ رہے ہیں- مسلم لیگ نون کے لیڈروں کی خواہش ہے کہ 2018 کی تاریخ کو دہرایا جائے۔
عمران خان کے خلاف مقدمہ چلا کر اور اسے سزا دے کر پابند سلاسل کیا جائے اور اس کے بعد انتخابات کروائے جائیں تاکہ مسلم لیگ نون کی کامیابی کے امکانات روشن ہو سکیں- عمران خان سیاست دانوں سے مزاکرات کرنے کی بجائے آرمی چیف کے ساتھ مذاکرات کی اپیلیں کر رہے ہیں -مائنس اور پلس کا کھیل جاری ہے یہ کھیل کس کے لیے سازگار ہو گا اس کے بارے میں فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہے- تحریک انصاف کو خیر باد کہنے والے لیڈروں کو سیاسی پناہ دینے اور ان کو پر امید رکھنے کے لیے استحکام پاکستان پارٹی قائم کی گئی ہے جسے کنگز پارٹی کا نام دیا جا رہا ہے- جو سیاست دان تحریک انصاف کو چھوڑ کر کنگز پارٹی میں شمولیت اختیار کریں گے ان کے خلاف مقدمات قائم نہیں کیے جائیں گے اور نہ ہی ان کو ہراساں کیا جائے گا- استحکام پاکستان پارٹی کے سیاسی مستقبل کا انحصار عمران خان کے ووٹ بنک پر ہے-
اگر عمران خان کی نااہلی اور سزا کے بعد تحریک انصاف کے کارکن عمران خان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں مایوس ہو گئے تو استحکام پاکستان پارٹی کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں اور یہ جماعت پنجاب میں قابل ذکر نشستیں جیت سکتی ہے-اگر عمران خان کو سیاست سے مائنس کیا گیا اور تین بار وزیر اعظم رہنے والے سیاستدان میاں نواز شریف کو پلس کیا گیا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں جس پر متعلقین کو پوری سنجیدگی کے ساتھ غور کر لینا چاہیے-پاکستان کے عوام اور ریاست کا مفاد اس میں ہے کہ عوامی رائے عامہ کو فیصلہ کرنے کا صاف شفاف اور یکساں موقع دیا جائے -پاکستان کے عوام اجتماعی دانش سے جو سیاسی فیصلہ کریں گے وہی پاکستان کے لیے اور ریاست کے لیے بہتر ہوگا - ذاتی اور سیاسی مصلحتوں کے لیے 24 کروڑ عوام کا مستقبل خراب نہیں کرنا چاہیے -
مائنس ون اور پلس ون کی سیاست
Jun 17, 2023