پاکستان کی معیشت کو سنبھالنے کی حوصلہ افزاءپیشرفت

پاکستان اور آذربائیجان کی قیادت نے دونوں ممالک کے اشتراک عمل کو مزید بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ اس سلسلہ میں گزشتہ روز باکو میں وزیراعظم میاں شہبازشریف سے ملاقات کے دوران آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے یہ خوشخبری سنائی کہ پاکستان کے توانائی کے بحران کے خاتمہ کیلئے روس کے بعد آذربائیجان سے بھی آئندہ ماہ سے رعایتی ایل این جی کارگو پاکستان آنا شروع ہو جائیں گے جس کی آذربائیجان کابینہ نے منظوری دے دی ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف گزشتہ چھ ماہ سے اس ڈیل کیلئے کوششیں کر رہے تھے جو اب روبہ عمل ہو گئی ہے۔ دونوں ممالک کی قیادتوں کی باہمی ملاقات میں دونوں ممالک کے مابین توانائی‘ زراعت‘ ٹرانسپورٹ‘ دفاع‘ سرمایہ کاری اور تجارت سمیت مختلف شعبوں میں باہمی تعاون کو وسعت دینے پر اتفاق کیا گیا۔ آذربائیجان پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں بھرپور تعاون کریگا۔ اس سلسلہ میں وہ تیل اور گیس کے شعبے میں پاکستان کی مدد کریگا جبکہ شمسی توانائی کے شعبے میں آذربائیجان پاکستان میں سرمایہ کاری کریگا۔ دوران ملاقات اس امر پر بھی اتفاق کیا گیا کہ آذر ایئرلائن اسلام آباد اور کراچی کیلئے دو پروازیں چلائے گی۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آذربائیجان کی آزادی کے بعد اسے سب سے پہلے تسلیم کرنیوالا پاکستان دوسرا ملک تھا۔ آذر صدر نے میاں شہبازشریف سے ملاقات کے دوران دیرینہ تنازعہ کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف کی بھرپور حمایت کی اور کہا کہ بھارت کے غیرقانونی زیرتسلط کشمیر کے عوام گزشتہ سات دہائیوں سے زائد عرصہ سے بھارتی مظالم کا شکار ہیں۔ وزیراعظم پاکستان نے آذربائیجان کے صدر کو دورہ¿ پاکستان کی دعوت بھی دی جو انہوں نے قبول کرلی۔ 
یہ امر واقع ہے کہ پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں اسکی ناروا اقتصادی‘ مالی پالیسیوں کے نتیجہ میں پاکستان کو مالی اور توانائی کے بحران کے سنگین مسائل سے دوچار ہونا پڑا جبکہ پی ٹی آئی قیادت نے اپنے طرز عمل سے دوست ممالک بالخصوص چین اور سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بھی خراب کئے جس سے پاکستان کے جاری بحرانوں میں مزید اضافہ ہوا۔ پی ٹی آئی کے اقتدار کے خاتمہ کے بعد اتحادی جماعتوں کی حکومت کو پی ٹی آئی حکومت کے گھمبیر بنائے گئے عوام کے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل اور توانائی کے سنگین مسائل سے عہدہ برا¿ ہونے کے ہی بڑے چیلنجز درپیش آئے جبکہ پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایم ایف کے بیل آﺅٹ پیکیج سے متعلق شرائط پر عملدرآمد کے معاملہ میں بدعہدی کرکے بھی آئی ایم ایف اور پاکستان کے دوسرے بدخواہوں کو پاکستان کو ڈیفالٹ کی جانب دھکیلنے کا موقع فراہم کیا۔ 
اتحادیوں کی حکومت اپنے اقتدار کے آغاز سے اب تک پی ٹی آئی حکومت کے پیدا کردہ انہی مسائل کے حل اور بیرونی دنیا میں پاکستان کا اعتماد اور تشخص بحال کرنے کی کوششوں میں مگن ہے۔ اتحادی حکومت کا حصہ ہونے کے ناطے پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اسی تناظر میں بیرونی دنیا سے روابط بحال کرنے اور بڑھانے کیلئے مختلف ممالک کی قیادتوں سے ٹیلی فونک رابطوں کے ساتھ ساتھ ان ممالک کے باضابطہ دوروں کا سلسلہ بھی شروع کیا اور اسی طرح وزیراعظم میاں شہبازشریف بھی بیرونی دنیا کے ساتھ روابط مستحکم بنانے کیلئے متحرک ہیں۔ اسی طرح آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر بھی بیرونی دنیا میں پاکستان کا تشخص بڑھانے کی کوششوں میں پیش پیش ہیں اور اس سلسلہ میں چین‘ سعودی عرب سمیت متعدد ممالک کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔ 
وزیراعظم شہبازشریف کا موجودہ دورہ آذربائیجان بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے اور ملک کی سول حکومتی اور عسکری قیادتوں کے باہم تال میل سے ملک کو سنگین اقتصادی‘ مالی بحرانوں بالخصوص آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کی معطلی کے باعث پیدا ہونیوالے مسائل سے نکالنے کی راہ ہموار ہوتی نظر آرہی ہے۔ اس وقت پاکستان چین اعتماد کا رشتہ مزید مضبوط ہوا ہے اور انکے اقتصادی راہداری کے مشترکہ منصوبے (سی پیک) کے اپریشنل ہونے سے ان دونوں ممالک ہی نہیں‘ پورے خطے کے امن و استحکام اور خوشحالی کے راستے کھل رہے ہیں۔ اسی طرح برادر مسلم ممالک سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ قطر‘ اومان کی جانب سے بھی ہمیں ٹھنڈی ہوا کے جھونکے مل رہے ہیں اور اب روس کے علاوہ دوسری وسطی ایشیائی ریاستوں بشمول آذربائیجان کی جانب سے بھی ہمیں بالخصوص توانائی کے بحران سے عہدہ برا¿ ہونے کیلئے معاونت حاصل ہو رہی ہے۔ 
یہ صورتحال ہماری ارض وطن کے امن‘ ترقی‘ استحکام اور خوشحالی کیلئے یقیناً خوش آئند ہے اور اسی بنیاد پر ہم بیل آﺅٹ پیکیج کی بحالی کی خاطر آئی ایم ایف کی مسلسل جاری بلیک میلنگ سے جان چھڑانے کی بھی پوزیشن پر آگئے ہیں۔ گزشتہ روز اس حوالے سے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی دوٹوک انداز میں باور کرایا کہ آئی ایم ایف کا بیل آﺅٹ پیکیج کا معاہدہ بحال نہ ہونے سے بھی ہمیں فرق نہیں پڑیگا۔ ہم اس کی ہر بات نہیں مان سکتے جبکہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پہلے ہم سری لنکا جیسے حالات سے دوچار ہوں اور ہماری معیشت کا دیوالیہ نکلے اور پھر آئی ایم ایف ہم سے اپنی ہر بات منوالے۔ اس طرح پاکستان کے ساتھ جیوپولیٹکس ہو رہی ہے۔ انہوں نے آئی ایم ایف کو باور کرایا کہ ہم سری لنکا ہرگز نہیں اور اپنی معیشت کو پاﺅں پر کھڑا کر سکتے ہیں۔ 
چونکہ ہمیں آئی ایم ایف اور اسکی ڈوریاں ہلانے والے پاکستان کے بدخواہوں کی نیت اور ذہنیت کا بخوبی اندازہ ہو چکا ہے اور آئی ایم ایف پاکستان کو اقتصادی غلامی میں جکڑ کر اسے سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام سے دوچار کئے رکھنے کے منصوبے پر کاربند ہے اس لئے حکومت کو اسکے بیل آﺅٹ پیکیج کے ساتھ وابستہ کی گئی آس کے دروازے بند کرکے اپنے بی پلان پر عملدرآمد کا آغاز کر دینا چاہیے۔ اسی طرح پاکستان کے بدخواہوں اور انکے ملک میں موجود ایجنٹوں کو ٹھوس پیغام دیا جا سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن