قصہ وفاقی دارالحکومت کے ایک سیکٹر کا…!

تحریر: جاوید انتظار 
انسان اللہ رب العزت کا سب سے بڑا شاہکار ہے یہ درست ہے کہ ہر ملک میں بے شمار شہر ،گاوں ،ٹاؤنز اور سوسائٹیز ہیں جہاں ہر طرح کے  کاروباری،سیاسی اور مذہبی سمیت ہر طبقہ فکر گے لوگ رہتے ہیں۔جن میں  سرکاری اور نجی سیکٹر کے ملازمین ،کاروباری اور مذدور طبقات رہتے ہیں۔کچھ لوگ مختلف فیلڈز کے اندر خدمات سر انجام دے رہے ہوتے ہیں۔دنیا میں ایک ریاست پاکستان بھی ہے جس کے دارالحکومت کے کا ایک سیکٹر جی سکس بھی ہے جس کے سب سیکٹرز ہیں جس کے ہر گھر میں مختلف روش و مزاج کے لوگ رہتے ہیں۔ان میں ایک سیکٹر میں ہم بھی رہتے ہیں ۔اس دنیا میں نجانے کتنی دنیائیں ہیں۔اتنے حساب کتاب میں ہماری کیا حیثیت ہے؟اس سوال کا جواب تلاش کرنا آپ پر چھوڑتا ہوں؟پھر دنیا کے ہر گھر میں رہنے والے کے اندر بھی نجانے کتنی دنیائیں ہوتی ہیں۔ جس میں جائز ناجائز خواہشوں ،سوچوں اور خوابوں کا لا متناہی سلسلہ ہے۔انسان کی عمر محدود ہوتی ہے۔لیکن خواہشیں لا محدود ہوتی ہے۔انسان محدود کو لا محدود کو پانے کے لئے سر توڑ کوشش میں مگن رہتا ہے۔آخر کیا ہوتا ہے ؟بس فنا؟اسی میں بقا کا راز بھی جھپا ہوتا ہے۔کوئی فنا کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے بقا کی کوشش کرتا ہے۔انسان میں سوچ پیدا ہوتی ہے۔ایک سوچ بناتا ہے دوسرا توڑ کر دوسری سوچ بنانے میں لگا ہوا ہوتا ہے۔ 
 عبدالحمید عدم یاد آگئے
عمر اس وسوسے میں بیت گئی
یوں نہ ہوتا عدم تو یوں ہوتا
جب سے دنیا بنی ہے طاقت اور اختیار کی نہ ختم ہونے والی جنگ جاری و ساری ہے۔جس میں حکومت ،اپوزیشن اور ہر طبقہ فکر اپنے اپنے نظریات پر کام کر رہا ہے۔گویا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اختلاف رائے پر دنیا قائم ہے۔دنیا میں لوگ  بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں ۔ہر کوئی عقل کے گھوڑے دوڑا رہا ہے۔لیکن گھوڑا جتنا بھی تیز دوڑ لے اپنے سر سے آگے نہیں جاسکتا۔ کسی کو  ایک فیلڈ کے اندر جہد مسلسل کرنے سے اللہ ویڑن عطا فرماتا ہے ۔ویڑن دیوار کے پیچھے دیکھنے کا نام ہے۔کوئی سوچ سے آگے سوچ رکھتا ہے۔یہ بھی ویڑن ہوتا ہے۔کوئی اپنی خاص دنیا بسا کر اسی کو کل کائنات سمجھتا ہے۔جیسے کنویں کا مینڈک کنویں کو  ہی دنیا سمجھتا ہے۔مزے کی بات. یہ ہے کہ دنیا کسی کی نہیں ہوتی۔دنیا میں شارٹ کٹ سی ترقی حاصل کرنے والے لوگ بھی ہوتے ہیں ۔اسی دنیا میں لوگ سمجھتے ہیں شارٹ کٹ کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔کچھ لوگ سمجھتے ہیں کامیابی کا دارو ومدار صرف محنت پر ہوتا ہے۔کوئی مرنے سے پہلے مر جاتا ہے۔کوئی مر کر زندہ جاوید اور امر ہو جاتا ہے۔چپڑاسی سے لے کر وزیر اعظم اور مزدور سے لے کر بزنس مین  تک ہر کوئی معمولات زندگی کا حساب کتاب کرتا۔جس میں پیسے، پچت مستقبل، اور خواہشوں خوابوں کا نہ ختم ہونے والا جم غفیر ہے۔جس کا منہ بولتا ثبوت میڈیا اور خاص طور شوشل میڈیا ہے۔اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات اور سب سے طاقتور بنایا ہے۔جس کے عدم ادراک سے وہ اپنی اصل سے دور ہونے کی وجہ سے کھو رہا ہے۔دنیا کے کئی ملک طاقت کو دلیل سمجھتے ہیں۔اپنی قوم کے لئے فلاحی و فکری اور انصاف کی سوچ پر عمل پیرا ہیں۔کچھ ممالک اور اسکے لوگ دلیل کو طاقت سمجھتے ہیں۔کچھ دیوار کے پیچھے اور سوچ سے آگے دیکھ لیتے ہیں۔ایسے لوگوں سے دنیا بھری پڑی ہے۔تخریب کاری،دشمنی،مکاری عیاری و دیگر نفیساتی اور معاشرتی بیماریوں کی بھی  دنیا میں کسی قسم بھی کوئی کمی نہیں ہے۔دنیا اور دنیا میں رہنے والوں کے رویہ اور انداز کی باتیں ختم ہو ہی نہیں سکتی۔فنا نے فنا ہونا ہی ہوتا ہے۔دنیا ادھر ہی رہ جاتی ہے ۔انا ظرف پر حاوی آجائے تو انسان کو چھوٹا بنا دیتی ہے۔ظرف انا پر حاوی آجائے تو انسان کو بڑا بنا دیتا ہے۔بقا صرف اللہ کے راستے پر جلنے سے ملتی ہے۔
دیوار کے پیچھے بھی ایک سوچ ہوتی ہے اور سوچ سے آگے بھی ایک سوچ ہوتی ہے۔دیوار کے پچھے سوچ غلامی کی زنجیروں میں مقید ہوتی ہے۔سوچ سے آگے سوچ انسان کو حاللات سے مقابلے کی ہمت اور حوصلہ دیتی ہے۔دیوار کے پیچھے سوچ  دیوار  کے آگے نہیں دیکھ سکتی ۔سوچ سے آگے سوچ دیوار کے پیچھے دیکھ لیتی ہے۔بس اتنا کہوں گا کہ انسان کو سوچنا ہے بس۔سوچنے کے لئے خود سے ملاقات ضروری ہے۔خود سے ملنا خود سے سوچنا اتنا ضروری ہے جیسے زندہ رہنے کے لئے کھانا ضروری ہے۔اس سوچ کی حدود و قیود اور فکر و فلسفے سے نکل کر ذرا ملک کے حالت حاضرہ کا سوچتے ہیں۔جس میں ایک سوچ پیدا کی گئی اور پیدا ہو گئی۔دوسرا بیدہ شدہ سوچ کو قتل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔نادان سمجھ رہا ہے وہ سوچ کو طاقت اور اختیار سے بدل دے گا۔وہ یہ نہیں جانتا کہ سوچ کو زور زبردستی اور طاقت سے نہیں بدل سکتا ۔جو ریاست سوچ کا احاطہ و ادراک نہیں رکھتی وہ اپنے درد بھرے انجام کیطرف بڑھ رہی ہوتی ہے۔بس آج ہر ایک نے سوچنا ہے ۔یہ سوچنا ہے کہ حالت کبھی نہیں بدلتے انکا رخ موڑا جاتا ہے۔پاکستان میں ایک سوچ ریاست سے ٹکراو کی بھی ہے۔جس کو تقریروں سے زبان زد عام کیا جا رہا ہے۔جو اپنی وجود میں حقیقت نہیں صرف ایک افسانہ ہے۔پہلا ہدف طاقت کا حصول ہوتا ہے ۔اس کے بعد ریاست کو بتدریج ٹھیک کیا جاتا۔ملک میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے ۔آگ دونوں طرف برابر ہے لگی ہوئی۔اس نادیدہ آگ کو ٹھنڈا نہ کیا گیا تو کہیں سب کچھ جلکر خاکستر نہ  ہو جائے۔ہر ایک اپنی عینک سے ملک کے معاملات دیکھ رہا ہے ۔جس سے الجھاؤ ہی الجھاؤ ہے۔سلجھاؤ کے لئے  پاکستان کے کارکن کی عینک سیے دیکھنے سے چیزیں مختلف نظر آنا شروع ہو جائیں گیں۔یوں بھی کہہ لیں ہر چیز کے پیچھے ایک چیز ہوتی ہے اصل وہی چیز ہوتی ہے۔اس اصل چیز کی عملداری کے لئے دیوار کے پیچھے سے نکل کر سوچ سے آگے سوچ کو اپنانا ہوگا۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا ناصر و طرف دارہو آمین

ای پیپر دی نیشن

مصنوعی لکیریں

منظر الحق Manzarhaque100@gmail.com  قدیم زمانوں میں دنیا کی ہیئت آسان ہوا کرتی تھی،جغرافیائی سرحدوں و لکیروں کا نام و نشان تک نہ ہوتا ...