تحریر پروفیسر امجد اقبال۔
محققین اور ماہرین علم و فن کا یہ کہنا اور ماننا ہے کہ انسان نے لکھنا پڑھنا پانچ ہزار سال قبل سیکھا تھا۔ اپنے تجربے اور مشاہدے کے ذریعے کائنات ' رنگ و بو اور دنیائے ہست و بود کے عناصر و مظاہر کے متعلق جو کچھ کشید کیا اسے اپنی بساط' طریقے اور سلیقے سے سپرد قلم کرتا چلا گیا۔ یہ ایک داستان طولانی ہے کہ انسانی تاریخ کے ارتقا کے مختلف ادوار میں تحریری سرگرمیوں کی ابتدا و آغاز کیوں کر اور کب سے ہوا۔ انہی کے جوابات کے حصول کے لئے انسانی فکر و د انش اور عقل و شعور کے سوتے اور دھارے اپنی تمام تر جولانیوں کے ساتھ بہہ نکلے۔ زمانے اور وقت کی مختلف کروٹوں اور صورتوں کو بدلتے اور کبھی سماجی و معاشی انقلابات کے زیراثر خود کو بدلتے چلے گئے۔ استبداد زمانہ کی تمام تر ستم ظریفیاں بھی ادب کا کچھ بگاڑ تو نہ سکیں البتہ ادب نے اپنی تزئین و آرائش میں اضافہ کیا اور فکری و فنی سطح پر خوبصورت سے خوبصورت تر ہوتا چلا گیا۔ جذبات کے اس پیکر خاکی نے ' اپنے دلی خیالات ' تاثرات اور احساسات کے اظہار کے لئے الفاظ کے خوبصورت اور ہمہ رنگ لباس تخلیق کیے۔
دریائے نیل کی وادی' جنوبی عراق کے خطے' ہندوستان میں دریائے سندھ کے کناروں پر یا چین میں دریائے ہوانگ ہو کی کچھاروں پر قدیم ترین تہذیب و تمدن کے جو آثار دریافت ہوئے ہیں انہیں کھرچنے' کھودنے اور کریدنے کے بعد بھی یہی عقدہ کشائی ہوئی کہ انسان کے پاس(Documented) اور قابل فہم ادب تو محض اڑھائی ہزار سال ہی قدیم ہے۔ اس سے قبل کے ادوار سے انسان یا تو ناواقف و نابلد ہے یا جو دستیاب تحریری مواد ہے وہ اپنی ادبی زبان اور اسلوب کے باعث اس کے لئے قابل فہم ہے ہی نہیں۔
چین و مصر کی تہذیب سے دستیاب ہونے والی تحریریں ایک مخصوص کاغذ کے بنے ورقوں پر ہیں۔ ان ورقوں کو ایک خاص درخت کے تنے سے تیار کیا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ایسے اوراق پر لکھی دستیاب تحریروں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہے اور جن کی جمع آوری کے بعد (Alexandria) میں دنیا کی سب سے بڑی لائبریری معرض وجود میں آگئی تھی۔ ان اوراق پر مصر کے فرعونوں کے احوال درج تھے اور یہ لائبریری آج سے اڑھائی ہزار پہلے اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ بنی نوع انسانی کے لئے علم کے موتی بکھیر رہی تھی۔
عراق میں دستیاب ہونے والی تحریری مٹی کی پکی ہوئی تختیوں پر ہیں۔ اہل یونان نے علم و حکمت اور فکر و دانش کی اس روایت کو معیار و مقدار کے اعتبار سے ہمدوش ثریا کر دیا۔ اس کے بعد مسلمانوں اور اہل یورپ و امریکہ نے اس کی خوب خوب آب یاری کی۔ شومئی قسمت کہیے کہ ایک انسان قرطاس و قلم کو کام میں لاکر اپنے علمی سرمائے اور اثاثے میں گراں قدر اضافہ کر رہا تھا تو دوسری طرف اسے برباد کرنے اور مٹانے کے لئے دشمن قوتیں بھی انسانی شکل ہی میں برسر پیکار رہیں۔
جہاں کتاب نے خود کو ا نسان کا بہترین دوست ثابت کیا وہیں انسان نے مختلف ادوار میں کتاب دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ سقراط' ارسطو کے کتب خانے ہوں یا سمر قندو بخارا کے علمی خزینے یا پھر بغداد و دہلی کے علمی مراکز ہوں' حیران کن امر یہ ہے کہ انسان ہی نے اپنی ناعاقبت اندیشی کے باعث اپنے ہی علمی کارناموں کو دریا برد یا نذر آتش کیا۔
دنیا جدید میں کتب خانوں کی شکل و صورت اور ہیئت تک بدلتی جارہی ہے۔ بلند و بالا اور عالیشان عمارتوں کی لائبریریوں نے خود کو چھوٹی(Chips) سمونا شروع کر دیا ہے۔ سینکڑوں ہزاروں کتابیں لمحے بھر میں سکرین پر آسکتی ہیں۔ لائبریریاں اب(E-Libraries) میں بدلتی جارہی ہیں۔ گویا کہا جاسکتا ہے کہ وجود اس کا برقرار رہے گا جس نے خود کو زمانے کے مطابق ڈھالا۔
راجا نور نظامی' سنگ تراشوں کے د یس کی پہچان اور شناخت ہیں۔ ٹیکسلا آج سے دو ہزار سال قبل سے دنیا بھر میں علم و آگہی کے مرکز کی وجہ سے جانا' پہچانا اور مانا جاتا تھا۔ برسوں قدیم علمی روایات کو اپنی آب و تاب کے ساتھ محفوظ رکھنے کے لئے جہاں سرکاری ادارے سرگرم عمل ہیں وہیں کچھ افراد اپنی ذاتی محنت توجہ اور وسائل کے بل بوتے پر تنہا ہی اداروں کے برابر کام کررہے ہوتے ہیں۔ راجا نور نظامی بھی علم و ادب اور شعور و آگہی کے انہی شیدائیوں میں شمار ہوتے ہیں جو خود بھی صاحب تصنیف و تالیف ہیں اور ٹیکسلا کے دور افتادہ گاؤں بوئی گاڑ میں بیٹھ کر بدھ مت سے متعلقہ تاریخی مواد اور نوادرات پر برس ہا برس سے پہر ہ دے رہے ہیں۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب میں ایم فل اردو کررہا تھا اور کسی تحقیقی موضوع کے حوالے سے مواد درکا تھا تو ڈاکٹر نثار احمد قریشی مرحوم سے استدعا کی تو انہوں نے بے ساختہ راجا نور نظامی کا نام لے کر فرمایا کہ ان کے پاس چلے جاؤ' بڑے د ریا دل اور مدد و معاونت کرنے والے انسان ہیں۔ درجنوں بیسیوں مقالہ نگاروں کی نہ صر ف مدد کی بلکہ راجا نور نظامی اپنی طرف خوب خاطر تواضع بھی کرتے ہیں۔ طالب علموں کے لئے ان کے دروازے اور دل ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ تاریخی کتب ' مخطووطوں اور نوادرات کو دیکھنے کا بھی اعزاز حاصل کیجئے اور لذت کام و دہن سے بھی سیراب کریں' یہ خاصا ہے راجا نور نظامی کا جو عرصہ دراز سے علم و ادب کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ جن کی گراں قدر خدمات کااعتراف معروف مورخ اور ماہر بدھ مت تاریخ و تہذیب نے بھی کیا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مقامی اور قومی سرکاری ادارے آگے بڑھیں او ر راجا نور نظامی کو تمغہ خدمت یا تمغہ امتیاز کے لئے نامزد کریں اور علم دوست ہونے کا ثبوت دیں۔
راجا نور نظامی صاحب کو بھی چاہیے کہ اپنے کتب خانے کی کتابوں کو پی ڈی ایف یا ویڈیو کی شکل میں محفوظ کریں۔ اس سلسلے میں بے شمار کمپیوٹر سافٹ ویئر کام میں لائے جاسکتے ہیں۔ راجا نور نظامی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ڈاکٹر اسد محمود خان نے بھی اپنے ذاتی کتب خانے کے قیام کے لئے عملی کوششیں شروع کر دی ہیں اور میری اطلاع کے مطابق اس وقت ان کے کتب خانے کی زینت ہزاروں کتابیں ہیں۔ خاص طور پر افسانوی ادب و کہانی افسانہ کے حوالے سے تو بہت ہی زرخیز شعبہ ہے اور مستقبل میں ''کہانی سرائے'' کے نام سے ایک الگ سے گوشہ بنانے کا بھی منصوبہ ہے۔ جس خطے میں راجا نور نظامی جیسے ''گندھارا تہذیب کا استعارہ'' افراد موجود ہوں وہاں کتب بیتی اور ذخیرہ کتب کی سنہری روایات پروان ہی چڑھا کرتی ہیں۔