تحریر انور خان لودھی
مریم نواز پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیسے چلا رہی ہیں اس سوال کا جواب دیانت داری سے دینا آسان نہیں۔ سیاسی وابستگی رکھنے والے اس سوال کو سیاسی عدسے سے دیکھتے ہیں جس سے ن لیگ والوں کو سب اچھا اور ن لیگ کی مخالف سیاسی قوتوں کو دھندلا سا دکھائی دیتا یے۔ اس دھندلکے میں وہ ایسی ایسی رائے دیتے ہیں، طنز کے ایسے تیر برساتے ہیں کہ الحفیظ و الامان۔ معتدل ہو کر تجزیے کہ ہمت کی جائے تو ایک ہی جملہ کافی ہے کہ " مریم نواز، عثمان بزدار سے تو بہتر ہی ہیں" اس جملے میں ہزار الفاظ پوشیدہ ہیں۔ عثمان بزدار کے سر پر ملک کے سب سے بڑے صوبے کے اقتدار کا ہما اچانک آن بیٹھا تو سیاسی شعور رکھنے والا ہر شہری حیراں اور لب بستہ تھا۔ کچھ شخصیات باصلاحیت ہوتی ہیں ان پر رہبری مسلط کردی جائے تو وہ تیزی سے اس کے رموز سمجھ لیتے ہیں اور پھر اقتدار کی راہ پر ہمواری سے چلنا شروع کردیتے ہیں۔ عثمان بزدار اس خوبی سے عاری تھے۔ ساڑھے تین سال وزیر اعلیٰ رہے اور مجال ہے اپنی کیپیسٹی بلڈنگ پر توجہ دی ہو۔ ان پر جتنی تنقید ہوتی تھی اس کا علاج انہوں نے " اک چپ، سو سکھ" کے اکھان میں ڈھونڈ رکھا تھا۔ کم گوئی کو اپنی ڈھال بنا کر زمانے کو بتاتے تھے کہ جو اکھاڑنا ہے اکھاڑ لو بھئی ہم تو ایسے ہی ہیں۔ اب بات کرتے ہیں مریم نواز کی۔ نواز شریف کی بیٹی کو اقتدار ایک تو اچانک نہیں ملا۔ ن لیگ کی قیادت نے ان کو کئی برس اس زمذمہ داری کیلئے تیار کیا۔ ان کی ذہن سازی کی اور اہم عہدے کیلئے ریہرسل کرائی گئی۔ نواز شریف جب عمران خان حکومت سے پہلے اقتدار میں تھے تو مریم نواز پر ایک اعتراض یہ بھی عائد کیا جاتا تھا کہ وہ۔کس حیثیت میں وزیراعظم کی زیرِ صدارت اجلاسوں میں شریک ہوتی ہیں۔ اس کا جواب عوام کو اب ملا کہ مریم کی سیاسی تربیت ہو رہی تھی۔ سیاسی مورخ جب تاریخ لکھے گا تو مریم کو بزدار سے یقیناً زیادہ نمبر دے گا۔ مریم نواز نے خود کو اس اہم عہدے کیلئے وقف کر رکھا ہے۔ وہ رات گئے یا سحری کے وقت تعمیراتی منصوبوں کا اچانک معائنہ کرنے جائیں یا نہ جائیں لیکن ایک بات مسلمہ ہے کہ انہوں نے اپنی کارکردگی میں تسلسل کو یقینی بنایا ہے۔ عیدالاضحیٰ سے ایک دن قبل قوم چھٹی منارہی تھی لیکن وزیراعلی پنجاب مریم نوازشریف نے چھٹی والے دِن بھی اجلاس بلالیا۔ کئی معاملات پر اپنے افسروں کی طنابیں کھینچیں۔ ہدایات دیں کہ وزیراعظم شہبازشریف کے پٹرول میں کمی کا بڑا ریلیف کرایوں میں کمی کی صورت عوام کو پہنچایاجائے، پٹرول کی قیمت میں 35 روپے کمی کے باوجود ٹرانسپورٹ کرایوں میں کمی نہ ہونے پر وزیراعلی پنجاب وزارت اور افسران پر برہم ہوئیں اور وزارت ٹرانسپورٹ، پولیس کو ٹرانسپورٹ کرایوں میں فوری کمی کے لئے آپریشن شروع کرنے کی ہدایت کی۔ وزیراعلی پنجاب نے شکایات اور معائینہ کمیشن کوبھی فوری اقدامات کی ہدایات کردیں۔ اس کے علاوہ روٹی، کرائے سمیت دیگر اشیاء کی قیمتوں کو سرکاری نرخوں پر قائم رکھنے کو یقینی بنانے کا کہا اور خبردار کیا کہ کوتاہی برداشت نہیں ہوگی۔ عید الاضحیٰ پر صفائی ہمیشہ اہم مسئلہ رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز نے عید الضحی پر الائشوں کی بروقت صفائی، مویشی منڈیوں میں دھوپ سے بچا? کے لئے شیڈز کی فراہمی کی فوری ہدایت کی۔ اس کے علاوہ پہلی بار32 لاکھ خصوصی تھیلے بھی عوام میں تقسیم کرنے پر افسروں کو شادباش دی۔ حکومت کے فراہم کردہ پلاسٹک سے پاک تھیلوں میں عوام قربانی کا گوشت تقسیم کرسکیں گے۔ مویشی منڈیوں میں ڈاکٹرز کی فراہمی اور پانی سمیت دیگر ضروری سہولیات کی دستیابی سے یقیناً متعلقہ کوگوں کو استفادہ ہوگا۔ مریم نواز کی خواہش تھی کہ بڑی عید پر صفائی کا معیار وہی ہونا چاہیے جو وزیراعلی شہبازشریف کے دور میں تھا۔ عید پر عوام تفریح کیلئے بڑی تعداد میں نکلتے ہیں لیکن وہ خطرات مول لیتے ہیں اور نارروا مہمات میں پڑ جاتے ہیں جس سے جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے۔ مریم نواز نے عید کی تعطیلات کے دوران نہروں پر عوام کی جان کی حفاظت کے لئے لائف گارڈز کی تعیناتی کی بھی ہدایت کردی۔ اس کے علاوہ انہوں نے ٹریفک کا موثر پلان بنانے اور عوام کو ٹریفک جام سے بچانے کے لئے اقدامات کرنے کی بھی ہدایت کی۔ وزیر اعلی نے صوبے بھر میں امن وامان یقینی بنانے کے لئے بھی سخت اقدامات کی ہدایت کی اور کہا کہ تعطیلات کے دوران بھی تمام صورتحال کی ذاتی طور پر نگرانی کروں گی۔ چھٹی کے دن اجلاس سے مریم نواز نے اپنی اور اپنی انتظامیہ کی آنکھیں کھلی رکھنے کی جو سعی کی ہے اس سے عثمان بزدار کی نیم باز آنکھیں یاد آ جاتی ہیں جو انتہائی اہم اجلاسوں کے دوران بھی ہوری طرح کھلنے کا نام نہیں لیتی تھیں۔ وسیم اکرم پلس کی دکان ویسے بھی ٹھیک چل رہی تھی۔ آخر میں ایک مشورہ ہے جو مریم بی بی کو شاید اچھا نہ لگے۔ وقت کے تقاضے کے مطابق سوشل میڈیا کا استعمال ناپسندیدہ نہیں۔ ٹک ٹاک سے حکومت کے اقدامات عوام تک ضرور پہنچائیں لیکن میکنگ آف ٹک ٹاک کے کلپ کیوں لیک ہو جاتے ہیں۔ تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم کو ڈیجیٹل دنیا میں وہی درجہ حاصل ہے جو دنیائے کرکٹ میں آسٹریلیا کو۔ اس ٹیم کے مقابلے میں ایسی ہی ٹیم آئے گی تو مقابلہ کانٹے دار ہوگا ورنہ ٹک ٹاکر وزیر اعلیٰ کا ٹیگ گہرا ہوتا جائے گا۔ کارکردگی اور پراپیگنڈہ کی ریس ہو تو عمومآ موخر الذکر جیت جاتا ہے