پیرس کی ڈائری/محمود بھٹی۔
جب سے وفاق کا بجٹ 2024ء آیا ہے،فائلر اور نان فائلر پر ٹیکس عائد کرنے کی تجاو یز پر دلچسپ میمز کا تابتا بندھ گیا ہے،ان میں چند دلچسپ میمیز یہ ہیں ،عید کی نماز میں فائلر اگلی جبکہ نان فائلر پچھلی صفوں میں کھڑے ہوں گے،قصائی کے ریٹ فائلر کیلئے 5ہزار روپے جبکہ نان فائلر کیلئے 15 ہزار روپے،فائلر رشتے دار کو گوشت ملے گا جبکہ نان فائلر رشتہ دار کو صرف اوجھڑی ملے گی ،نان فائلر کو سبزی کے ساتھ مفت دھنیا اور پکوڑوں کے ساتھ چٹنی نہیں ملے گی، فائلر کی ایک دن کی زندگی،نان فائلر کی 100 سالہ زندگی سے بہتر ہے، نان فائلر کی بھی کوئی زندگی ہے،بریانی میں نان فائلر صرف چاول کھا سکتا ہے اور وہ بھی بغیر رائیتہ جبکہ لیگ پیس فائلر کا ہوگا،نان فائلر کو سالن میں صرف شوربہ ملے گا جبکہ بوٹیاں صرف فائلر کے لیے ہوں گی ،فائلر نماز جمعہ میں اگلی صف میں جبکہ نان فائلر پچھلی صف کھڑے کئے جائیں گے، نان فائلر کو سرکاری ہسپتالوں میں ا?دھا ٹیکا لگایا جائیگا، فائلر کیلئے نکاح فیس 5 ہزار روپے جبکہ نان فائلر کیلئے نکاح فیس 45 ہزار ہوگی، نان فائلر کو عید سے اگلے دن سْسرال جانے کی اجازت نہ ہوگی، نان فائیلر کو بغیر جنازے دفنایا جائیگا، بجٹ میں صحت کیلئے ہوالشافی،تعلیم کیلئے رب زدنی علما اور خوراک کیلئے واللّٰہ خیر الرازقین کے وظیفے مختص کئے جائیں گے،
اب سنجیدہ بات کی طرف آتے ہیں،کسی بھی ذمہ دار معاشرے میں نان فائلر ہونے کا تصور بھی نہیں ہے بلکہ اکثر ترقی یافتہ ممالک میں نان فائلر کی ٹرم ہی نہیں ہے،وہاں سسٹم ہی ایسا بنایا گیا ہے کہ کوئی نان فائلر ہو ہی نہیں سکتا ہے،ہر شخص،ہر ملازمت اورہرکاروبارٹیکس سسٹم کے ساتھ منسلک ہے،کوئی ٹرانزیکشن چھپائی نہیں جاسکتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہاں کرپشن،جھوٹ،دھوکہ دہی جیسے واقعات کی کم شرح ہونیکی وجہ سے معاشرے میں اخلاقی اقدار کا دور دورہ ہے،وہاں ڈبل ٹرپل ٹیکسیشن بارے سوچا بھی نہیں جاسکتا ہے، آیئے جنتے ہیں کہ جن ترقی یافتہ ممالک کا ویزہ لینے کیلئے ہم جائیدایں تک بیچ دیتے ہیں یا پھر ڈنکی بن کر ہر حال مین وہاں پہنچنے کیلئے اپنی جانیں تک دائو پر لگا دیتے ہیں وہاں کی حکومتیں کس شرح تک ٹیکس وصول کرتی ہیں،ایک بہت ہی دلچسپ میم یہ تھی کہ ٹیکس ناروے والے اور سہولیات نارووال والی،اس کا جواب یہ ہے کہ ہم تو اتنا ٹیکس دیتے ہی نہیں جتنا ترقی یافتہ ممالک کے عوام ادا کرتے ہیں، جیسے کہ آئیوری کوسٹ میں 60 فیصد، آسٹریا 55 فیصد،بلجیئم 54 فیصد،سویڈن 52 فیصد،ڈنمارک 53 فیصد،اسرائیل 50 فیصد، ہالینڈ 49 فیصد، سپین 47 فیصد، فرانس،،جرمنی، جاپان،برطانیہ 45 فیصد،فن لینڈ 44 فیصد،آئرلینڈ 40 فیصد، امریکہ 37 فیصد تک ٹیکس وصول کیا جاتا ہے،
بدقسمتی سیہمار ے ملک میں ابھی تک ہر صنعت،ہر ملازمت اور ہرکاروبار سرکاری ٹیکس سسٹم کے ساتھ منسلک ہی نہیں ہوسکا ہے،کئی دہائیوں تک تو ٹیکس ریٹرنز فائل کرنیکا طریقہ پیچیدہ ترین رہا تاکہ ٹیکس کنسلٹنٹس کی چاندی ہوتی رہے، پھر یہ افواہیں بھی پھیلائی جاتی رہیں کہ فائلرز بننے کے بعد ہمیشہ کیلئے بندہ پھنس جاتا ہے، جس کی وجہ سے آج بھی یہی سوچ عام ہے، ا?ج میں یہ کہوں گا کہ عوام کی اکثریت کو پتہ ہی نہیں ہے کہ فائلر بنے کا مطلب ہرگز نہیں کہ ان سے کوئی زبردستی اور مستقل ٹیکس وصول کریگا یا پھر جرمانہ کردیگا ، ہم ہر مہینے بل بھی تو بھرتے ہیں تو پھرسال میں ایک بار ٹیکس ریٹرنز بھرنا کیا مشکل ہے؟اب تو ریٹرنز بھرنا بھی بہت آسان ہوگیا ہے، بس پہلی بار تھوڑی دقت ہوتی ہے پھر سب ٹھیک ہوجاتا ہے،یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ صفر ٹیکس یعنی بغیر کوئی ٹیکس ادا کئے بھی فائلر بنا جاسکتا ہے ، سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ ہم اپنی ٹیکس ریٹرن خْود بھرکر جمع کرواتے ہیں، کوئی اور زبردستی ٹیکس نہیں لگاسکتا ہے، 90 فیصد عوام کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جو وہ چھپائیں،عوام چور نہیں ہیں،ان کے پاس بلیک کا مال نہیں ہے، لیکن پھر بھی وہ ٹیکس فائلر بننے سے ڈرتے ہیں؟ عوام سے میری گزارش ہے کہ ٹیکس فائلر بننے کا مطلب ہے کہ آپ حکومت کے ٹیکس نظام کا حصہ بننے جارہے ہیں، جس سے ملک ترقی کریگا، آپ کو ڈبل ٹیکس دینے سے نجات ملے گی، آپ کو قومی بچت، ود ہولڈنگ ٹیکس، جائیداد کی خرید و فروخت، امپورٹ و ایکسپورٹ اور دیگر کاروباروں میں ٹیکس رعایت ملے گی،رشوت دینے سے نجات ملے گی،میں سالوں سے ایک مغربی ملک میں رہتا ہوں مجھے کبھی نہیں لگا کہ میرے ساتھ کوئی نا انصافی ہوئی ہے،حکومت اتنا ہی ٹیکس لیتی ہے جتنا بنتا ہے، میں ٹیکس ادا کرتا ہوں اور وہاں اسکے بغیر رہنا ممکن ہی نہیں ، ٹیکس چوری ایک جرم ہے جو آپ کی حلال کمائی کو حرام میں بدل دیتا ہے ، اپنے عوام سے یہی درخواست کروں گا کہ ٹیکس نیٹ ورک کا حصہ بن کر ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں، سیاست چھوڑیں یہ ملک تو ہمارا ہے جسے ہم نے ہی سنوارنا ہے۔