ایرانی ایٹمی دھماکہ اور عالمی طبل جنگ

 گلوبل ویلج                
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
تیسری عالمگیر جنگ نہیں بلکہ آخری عالمگیر جنگ کا طبل جنگ بج چکا ہے اور طبل جنگ بجانے اور اس کو کھڑکانے میں عالمی چودھری ممالک کا زیادہ عمل دخل ہے۔یوں تو سرد جنگ کے بڑے عرصے کے بعد روس سوویت یونین بریک ہونے کے بعد اپنے پائوں پر کھڑا ہوسکا۔ اس دوران سرد جنگ میں کچھ کمی آئی۔ کیونکہ امریکہ اکیلا چوہدری تھا ،کوئی اس کے مدمقابل نہیں تھا، کوئی اس کو چیلنج نہیں کر سکتا تھا۔ تب نائن الیون کا واقعہ ہوا  یا کروایا گیا۔جس کی کوکھ سے کئی  ہونیوں اور انہونیوں نے جنم لیا  جیسے افغانستان کو تورا بورا بنا کر رکھ دیا گیا۔ اس کے بعد بڑے سالوں تک پاکستان کے اندر خانہ جنگی سول وار کا ماحول شروع ہو گیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگوں نے جانیں دیں۔ ان بم دھماکوں سے ہونے والی ہلاکتوں اور نقصانات میں ایسے ایسے سین دکھائی گئے ہماری آج کی نوجوان نسل کو جب وہ بچے تھے۔ تب یہ واقعات ہوئے 2000کے اوائل میں اور پورے مشرف دور میں یہ ہوتے رہے۔2018تک یہ واقعات تسلسل سے ہوتے رہے۔ ڈرون حملے پاکستان میں ہوتے رہے پاکستان کی مرضی اور پاکستان کی مرضی کے بغیربھی۔
پاکستان اس وقت شدید عالمی دبائو میں تھا، شدید امریکن دبائو میں تھا،چین کے ساتھ ہم نے سی پیک کا معاہدہ کر لیا تھا، ایران کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہو رہا تھا، وہ بھی زرداری صاحب کے دور میں ہوا۔ ان تمام واقعات کی روشنی میں امریکہ ہمارا اتحادی بھی تھا اور ہم سے مطمئن بھی نہیں تھا وہ سمجھتا تھا کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے اس کو جب چاہے زبردستی اس کے کان مروڑ لو،استعمال کر لو ،اس کو زیادہ لفٹ کرانے کی ضرورت نہیں کہ تم ہمارے اتحادی ہو۔ کیونکہ وہ پاکستان کی عادتوں کو جانتا تھا کہ پاکستان کے جتنے بھی ڈکٹیٹر،غیر سیاسی اورغیر جمہوری خاندان حکومت کرنے کے لیے آتے ہیں سب کا ایک مطمع نظر ہوتا ہے کہ ہمیں بٹھائے رکھو ، ہمیں سپورٹ کرواور ہم سے کوئی بھی کلابازی کسی وقت بھی لگوا لو۔
 ان حالات میں پاکستان نے بہت سیکریفائز کیا۔ہمارے سی پیک کے منصوبے پر بھی اس طرح عمل درآمد نہ ہو سکا جس طرح ہم اور چین مل کر چاہ رہے تھے۔ اور اس طرح عراق ، سیریا ،لیبیا،تیونس ان ممالک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کیا گیا، اور شدید قسم کی سول وار رہی۔ہر کوئی داعش کو  اسرائیل اور امریکہ کا مشترکہ بچہ سمجھتا ہے۔
 آج اور پھر حالات اس نہج پر آ گئے ہیں کہ ایک طرف حوثی باغی دوسری طرف ایران اور یہ سارے ممالک جن کا میں نے ذکر کیا اس کی زد میں ہیں۔ اس وقت ایک عجیب واقعہ یہ ہوا کہ روس نے چیچنیا کے ساتھ صلح کر لی اور وہ  آج کے بہترین اتحادی بن گئے۔ روس کے ایران کے ساتھ بھی تعلقات دوستانہ ہو گئے۔ ایران کی تجارتی پابندیوں کے باوجود بھی تیل اور ان کی ٹریڈ ہوتی رہی۔  اس کے دوران چین اپنے بہت مضبوط قدم جما چکا تھا۔چین دنیا کی نمبر ون طاقت بن گیا لیکن نمبر ون ہونے کا ٹیسٹ ابھی پاس نہیں کیا تھا۔چین نے پورے افریقہ میں چھوٹے چھوٹے ممالک میں اپنے پائوں جمائے، امریکہ جیسے بڑے ملک اور پورے یورپ کے اندر اس کا مال بکنے لگا اور آج حالت یہ ہے کہ اگر چین کے اندر اس کی پروڈکشن بند ہو جائے تو یہ ملک دو دن بھی سروائیو نہیں کر سکتے۔ اس دوران چین بھی روس کے ساتھ کھڑا ہو گیا تو پھر کیا تھا، ٹرمپ کا فیصلہ تھا کہ افغانستان سے فوجوں کو نکالنا ہے۔کہتے ہیں کہ بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے۔ بے آبرو ہو کر جس طرح سے ویت نام سے نکلے تھے۔جہاں اسلحہ چھوڑ گئے اسلحہ اس لیے چھوڑا تھا کہ پاکستان اس کا ہمسایہ ہے۔پاکستان کو تنگ کرے گا اپنے اسلحہ کے زور پر جو وہ آج کر رہا ہے۔ افغانستان کی طالبان گورنمنٹ کو کسی نے تسلیم نہیں کیا بس وہ شور مچا رہا تھا کہ ہمارا روپیہ پاکستان سے آگے ہے۔ وہ تو مارکیٹ میں آنے سے پتا چلتا ہے۔ یواین اوکے چارٹر کے مطابق ابھی تو آپ کو دنیا میں کوئی ممالک ریگنائز نہیں کرتا ۔ یہ تھا سارا ماحول جس کے اندر روس نے پائوں جمائے۔ اس وقت ایران کے جو صدر تھے ابراہیم رئیسی جنہیں پچھلے دنوں شہید کر دیا گیا۔ ابراہیم رئیسی نے بڑے جرات مندانہ، دلیرانہ فیصلے کیے اور اپنے وطن کو لے کر وہ آگے بڑھے۔ پچاس سالہ امریکن پابندیوں کے باوجود بھی ایران نے ایک سپرپاور ہونے کا تاثر دیا وہ بھرم قائم رکھا۔ایک طرف ایران کی سپورٹ تھی حزب اللہ کو اور دوسری یمن کے حوثی کو اور تیسری طرف حماس کو، کیونکہ وہ مسلمان بھائی اس لیے اس کو سپورٹ کی۔سیریا میں بھی امریکہ کو چھوڑکر جانے پر مجبور کیا۔ اس کے علاوہ عراق میں یہی پوزیشن ہوئی۔ ان سب حالات میں امریکہ کا جو سپرپاور ہونے کا بھرم تھا وہ ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو گیا۔ 
اس دوران جو سب سے بڑی بات یہ ہوئی کہ اس سال پچاس سال ہو جانے پر سعودی عرب اور اپیک کو امریکہ کے ساتھ کیے ہوئے معاہدہ کیا کہ تیل کی تجارت ڈالر میں کی جائے گی اور سعودی ریا ل ساڑھے تین کی سطح پر برقرار رہے گا۔ اب وہ معاہدہ ہونا تھا 9جون کو اور سعودی عرب نے ایک مصدقہ اطلاع کے مطابق ابھی تک اس کی توسیع نہیں کی۔بلکہ روس اور چین کے ساتھ ایک معاہدہ کر لیا کہ وہ ان کو ین اور دوسری کرنسی میں اس کا لین دین کریں گے۔ یہ وہ جنگ ہے جس کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ امریکہ ساری چیزیں برداشت کر سکتا تھا افغانستان سے نکلنا، سیریا سے نکلنا، عراق سے نکلنا اور بھی چھوٹی موٹی حجتیں ان کو ایگنور کرنے کو تیار تھا لیکن امریکی ڈالر کا جو بندھن ہے تیل سے اور ٹریڈ سے اس کو کسی طریقے سے کٹتا ہوا نہیں دیکھ سکتا کیونکہ امریکہ کی ساری سروائیو اس پر ڈیپنڈکرتی ہے۔ امریکہ ڈالر کی وجہ سے نمبر ون ہے اگر ڈالر نیچے جائے گا توتیل کی ڈالر میں تجارت نہیں ہو گی، دوسری ضروریات زندگی کی۔تو امریکہ پھر جیسے پاکستان ،سری لنکا سارے ملک ہیں اچھا کام کرے گا جس طرح روپے کا ریٹ بڑھتا اس طرح ڈالر کا ریٹ بڑھے گا۔پوری دنیا میں ڈالر چلتا ہے۔ ابھی ڈالر صرف آپ کے پاس چند ہفتوں کا مہمان ہے اس کے بعد اس کا حال وہی ہو گا جیسے  ین اور لیزے اور دوسری کرنسیوں کا ہوا۔ جب ڈالر نیچے جائے گا تو امریکہ کے پاس کوئی آپشن نہیں بچے گا۔کیونکہ امریکہ کے پاس اور کچھ بیچنے کو ہے نہیں۔  ساری ٹیکنالوجی فرانس کے پاس ہے ،یورپین کنٹری کے پاس ،روس کے پاس ہے۔ چین پوری دنیا میں آئی ٹی اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے ان سب پر بھاری ہے۔ اب امریکہ کی اپنے ڈالر کو مالش کرکے بیچنے کی بات ختم ہو گئی ہے۔ تو اب ایک ہی چیز بچتی ہے کہ میڈل ایسٹ اور امریکہ کو ایک نئی جنگ کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے امریکہ اس بات کو ایگنور کر رہا کہ اسے کسی جنگ میں نہیں جانا ہے۔ اور ان حالات میں جب کہ اس کے لیے کافی تگڑے ہر لحاظ سے ٹیکنکلی اور اکنامکلی حریف موجود ہیں۔  تو  اس وقت امریکہ اور روس یوکرین کی جنگ میںبالکل آمنے سامنے ہیں ۔ روس نے ان سب کو نیٹو سمیت پورے امریکہ ،برطانیہ اور یورپ کو ٹریپ کر لیا ہے۔ 
ایک ملٹری تجزیہ نگار ہونے کے ناطے میں بتاتا چلوں کہ اگر روس چاہتا تو اس کی وار یوکرین کے ساتھ زیادہ سے زیادہ آٹھ سے دس ہفتوں میں ختم ہو جاتی لیکن اس نے اس جنگ کو لمبا کیا اور اس کو بڑھایا کہ اس کو ختم نہیں ہونے دینا۔مجھے یاد آیا کہ ہمارے دو پہلوانوں کی کشتی ہو ئی۔ایک پہلوان کہہ رہا تھا کہ میں نے کشتی تو کر لی لیکن اب میں رگڑاگڑی سے جان چھڑانا چاہتا تھا کہ لیکن وہ میرے کندھے نہیں لگنے دے رہا تھا پھر میرا دا چل گیا اور میں زیر ہو گیا۔اب یوکرین تو بڑی دیر سے چاہ رہا ہے اور امریکہ بھی بڑی دیر سے چاہ رہا تھا کہ یہ جنگ ختم ہو۔ اب چونکہ پورا نیٹو اس جنگ میں شامل ہے۔اور اس جنگ کی وجہ سے وہ کہتے ہیں ناں کہ اگر چھوڑیں تو پھر بھی ان کی انا کو لاج لگتی ہے اور اگر پکڑے رکھیں تو اتنے وسائل نہیں ہیں، ان کا سارا بوجھ عوام پر پڑتا ہے جو اس وقت کساد بازاری اور مہنگائی کی وجہ سے بلبلا رہے ہیں۔تو ان سب حالات کی وجہ سے امریکہ پھنس گیا ہے اور دوسری طرف اسے اسرائیل نے حماس کے ساتھ جنگ کو طویل کر کے پھنسا دیا ہے۔ پوری دنیا کی توجہ بھی اس طرف ہے۔ 
 ان حالات میں امریکہ یہ جنگ نہیں چاہتا جو حماس اور اسرائیل کی شروع ہو چکی ہے۔اس جنگ میں سیریا بھی کود چکا ہے ،اب اس جنگ میں ایران بہت زیادہ انوالو ہو چکا ہے۔ اور وہ اپنے صدر کا بھی بدلہ لے گا۔ آنے والے چند گھنٹوں میں ایران نیوکلیئر ٹیسٹ کر سکتا ہے۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ یہ میری اطلاع ہے لیکن یہ میری خبر ہے۔ جب وہ ٹیسٹ کرکے گا تو یہ ایک شاک ہو گااسرائیل کے لیے اور امریکہ کے لیے جنہیں پتا ہے کہ ایسا ہونا ہے۔ وہ اس انہونی کو کسی طرح ٹالنا چاہتے تھے ، وہ کم از کم چاہتے کہ ایران کے صدر کو شہید کرکے ، حزب اللہ کی لیڈر کو شہید کرکے وہ ایسے کام کرکے ایرانی نیوکلیئر ٹیسٹ کو روکنا چاہتے تھے۔ لیکن ایران نے اپنے الیکشن سے پہلے یہ ٹیسٹ کرنے ہیں۔
طبل جنگ بج چکا ہے اس پر کوئی دو رائے نہیں ہے۔ طل جنگ تیسری عالم گیر جنگ کا یا دنیا کی آخری جنگ کا بج چکا ہے۔ اب کی بار جنگ ہوئی تو وہ جنگ ایسی نہیں ہو گی ،تلوار والی، نیزے والی ،گولیوں والی ، تیر کمان والی جنگ نہیں ہو گی،وہ جنگ ہیروشیما جیسی خوفناک جنگ بھی نہیں ہوگی۔ آج جو نیوکلیئر بمبوں کی پاور ہے وہ ہیروشیما کے اوپر گرائے جانے والے بم سے ہزاروں گنا زیادہ طاقتورہے۔ جس بم نے ہیروشیما اور ناگاساکی کو تباہ کیا تھاوہ بم آج کے مقابلے میں کھلونے تھے۔اگر نیوکلیئر جنگ شروع ہوئی تو ٹیکنالوجی بھی 1945ء والی ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ہیروشیما پر جو بم گرایا گیا وہ کہیں اور گرانا چاہتے ہیں۔آج جو میزائل فائر کرتے ہیں وہ اپنے ہدف کو ٹارگٹ کرتا ہے۔ آج کا میزائل اتنا خطرناک ہے کہ وہ ہیروشیما اور ناگاساکی جیسے درجنوں بم بھی ہو جائیں تو اس ایک میزائل کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ایک طرف میامی سٹیٹ جو کیوبا سے بالکل ایک سو دس کلومیٹر دور ہے ادھر کیوبن واٹر میں روس نے اپنے نیوکلیئر سے لیس، راکٹ سے، بم سے، جہازوں سے، اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ اپنا بحری بیڑہ موجود ہے۔ جوبائیڈن کی حکومت نے کافی اس پر اعتراض کیا ہے کہ یہ ہمیں اشتعال دلا رہے ہیں لیکن پوٹن جیسا دلیر آدمی اس گیدر بھبھکی کو نہیں مانتا۔دوسری طرف چین نے تائیوان کا محاصرہ کر لیا ،چالیس جنگی جہازوں نے تائیوان کا مکمل محاصرہ کر لیا نہ کوئی چیز اندر آ سکتی ہے اور نہ باہر جا سکتی ہے۔ ادھر پاکستان اور انڈیا کو بھی اشتعال دلایا جا رہا ہے۔ جب جنگ ہو گی تو پھر سب کا حصہ ہوگا۔ پاکستان میں بیٹھ کر یا انڈیا میں بیٹھا کر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم بچ جائیں گے۔کیونکہ جب آگ لگے گی تو دھواں اٹھے گا اور دھواں تب ہی اٹھے گا جب وہ نیچے تباہی و بربادی کرے گا۔

ای پیپر دی نیشن