فلسفہء قربانی پر بگڑے دانشوروں کا مجہول پراپیگنڈا

پچھلے دنوں ہمارے جی سی ساہیوال ایلومنائی ایسوسی ایشن کے وٹس ایپ گروپ میں ایک صاحب نے اپنے مذہبی ہونے کے زعم میں تڑاخ سے ایک پیغام شیئر کیا کہ قربانی کا جانور صرف وہی مسلمان خریدیں جن کی آمدنی خالصتاً رزقِ حلال پر مبنی ہے۔ دوسروں کی قربانی قطعاً جائز نہیں۔ مجھے اس پیغام میں اس ایجنڈے کا ہی شائبہ نظر آیا جسے بالخصوص سوشل میڈیا کی فعالیت میں شعائر اسلامی اور مسلمانوں کی فرض و سنت عبادات کو تضحیک کا نشانہ بنانے کیلئے بودی دلیلوں کا سہارا لے کر نام نہاد ترقی پسندوں نے طے کر کے اسے گذشتہ کچھ سالوں سے پھیلانے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ میں نے ان صاحب کے پیغام پر ان سے استفسار کیا کہ ان کے صادر کردہ حکم پر عمل کیا جائے تو ہمارے معاشرے کے کتنے فیصد لوگ ان کے مقرر کردہ پیمانے کے مطابق قربانی کا فریضہ ادا کرنے کے اہل رہ جائیں گے جبکہ ہمارے حکمرانوں نے تو اقتصادی بوجھ ڈال ڈال کر عوام کی اکثریت کو اپنے وسائل میں رہتے ہوئے اپنے ضروری اخراجات پورے کرنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا اور حالیہ پیش کئے گئے بجٹ میں بالخصوص سرکاری ملازمین کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ انکے پاس تو اب منڈی میں جاکر قربانی کا جانور خریدنے کی بس حسرت ہی رہ گئی ہے۔ پھر آپ رزقِ حلال کا چھانٹا پکڑ کر کھڑے ہوجائیں گے تو ہمارے معاشرے کے ایک فیصد لوگوں میں بھی جانور قربان کرنے کی سکت نظر نہیں آئے گی۔ اس طرح آپ کا فلسفہ تو عوام کو قربانی کا فریضہ ادا نہ کرنے کی ترغیب دینے والا ہی ہے۔ یہی کام بعض نام نہاد ترقی پسند اور برگشتہ عناصر مختلف جواز گھڑ کے کر رہے ہیں۔ گذشتہ سال ٹویٹر پر زارا عمر نامی ایک نام نہاد روشن خیال خاتون نے مسلمانوں کی فرض و واجب مذہبی عبادات کے بارے میں اپنی یاوا گوئی، غلیظ سوچ، فحش کلامی اور مادر پدر آزاد کلچر کی اپنی بدن بولی کے ذریعے نمود و نمائش کا اودھم مچائے رکھا۔ وہ سوشل میڈیا پر لوگوں کو ترغیب دے کر خود گالیاں کھاتی اور اس سے حذ اٹھاتی رہی۔  اس کا محبوب مشغلہ دوسرے بگڑے ہوئے دانشوروں کی طرح مسلمانوں کے واجب فریضہ قربانی کی بھد اڑانا تھا اور انسانی حقوق کی آڑ میں اس کے بودے دلائل یہی تھے کہ قربانی کے جانور پر جو رقم اٹھتی ہے وہ پاس پڑوس کے کسی مستحق کو دے کر اسکے اقتصادی حالات بہتر بنا دیئے جائیں۔ ہمارے ایک دوست دانشور بھی انسانی حقوق کا چیمپئن بننے کے شوق میں ایسے بودے دلائل دیتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی ایک نام نہاد دانشور سے کچھ عرصہ قبل میرے آفس نوائے وقت کے استقبالیہ پر میرا آمنا سامنا ہوا۔ یہ صاحب جانوروں کے حقوق کے تحفظ کا رضاکارانہ طور پر بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں اور بطور خاص گرمیوں میں پرندوں کیلئے پانی کے اہتمام کی تلقین کرتے ہیں اور اس کیلئے مہم بھی چلاتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے وہ اخبارات میں باقاعدہ اشتہارات بھی دیتے ہیں۔ استقبالیہ میں موجود ان صاحب پر میری نظر پڑی تو یکایک یہی گمان گزرا کہ سخت گرمی کا موسم آچکا ہے اس لئے یہ صاحب اپنی روٹین کے مطابق پرندوں کیلئے پانی کے اہتمام کی مہم چلانے نکلے ہونگے۔ میں نے استفسار کیا تو کہنے لگے کہ آپ کو تو پتہ ہے‘ عیدِقرباں قریب ہے اور مسلمانوں نے جانور ذبح کرنے ہیں مگرمیں یہ اپیل لے کر آیا ہوں کہ اس بار جانوروں کی قربانی سے گریز کرلیا جائے۔ اس کیلئے ایک جواز تو انہوں نے یہ بتایا کہ کرونا وائرس کی چوتھی لہر میں شدت پیدا ہو چکی ہے۔ اسکے دوران لاکھوں کی تعداد میں جانور قربان ہونگے تو وہ کرونا کے مزید پھیلاؤ کا باعث بنیں گے اس لئے انسانی حیات کے تحفظ کی خاطر کیوں نہ اس بار قربانی کے جانوروں کی زندگیاں بھی محفوظ کرلی جائیں۔ 

دوسرا جواز ان کا یہی تھا کہ جانوروں کی ذبیح پر مجموعی اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں‘ اگر یہی رقم قربانی کیلئے استعمال کرنے کے بجائے ملک کے غریب و پسماندہ عوام کی فلاح اور انکی بھوک و غربت ختم کرنے کیلئے استعمال کی جائے تو یہ بھی بہت بڑی نیکی اور انسانیت کی خدمت ہو گی۔ میں نے ان صاحب کو پہلی بار نظرانداز کیا اور انکی مزید یاوا گوئی سنے بغیر آفس کی لفٹ کی جانب بڑھ گیا۔ 
جہاں تک جانوروں کے حقوق کا معاملہ ہے‘ دینِ اسلام کے سوا انکے حقوق کا اور کہاں تحفظ ہو سکتا ہے۔ اسکی بہترین مثال نبی ٔ آخرالزماں‘ رحمت للعالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ اور آخری خطبۂ حج میں انکے ارشادات عالیہ ہیں۔ اس خطبۂ حج کے مندرجات بھی میں ان سطور میں پیش کروں گا تاہم پہلے اس پراپیگنڈہ کے مقاصد و محرکات کا تذکرہ ضروری ہے جو الحادی قوتوں کی جانب سے اور انکے ایماء پر اپنے تئیں روشن خیال مسلمانوں کی جانب سے دین اسلام کے بنیادی ڈھانچے اور اسکے ارکان سے سادہ لوح مسلمانوں کو بھٹکانے اور فرض و واجب عبادات سے گریز کے راستے نکالنے کیلئے کیا جاتا ہے۔
مجھے دنیا بھر میں گزشتہ پانچ سال تک جاری رہنے والے موذی کرونا وائرس کی حقیقت سے قطعاً انکار نہیں‘ اس سے بچنے کیلئے احتیاطی تدابیر بھی وقت کا تقاضا تھا اور اب بھی احتیاطی تدابیر اختیار کی جانی چاہئیں مگر الحادی قوتوں کو اسے فریضۂ حج کی ادائیگی کے موقع پر اتحادِ امت کی علامت بننے والے اجتماع میں دراڑیں ڈالنے کیلئے استعمال کرنے کا بھی نادر موقع مل گیاتھا۔ انہیں احتیاطی تدابیر کیلئے کھیلوں کی گراؤنڈوں میں کھّوے سے کھّوا چھلتے نظر آتے اجتماعات‘ سینما ہالوں‘ کسینوں‘ ہوٹلوں اور شاپنگ مالز میں ہلہ گلا کرتے انسانوں کی ہڑبونگ تو نظر نہ آئی مگر حج کا عظیم الشان اجتماع انکے دلوں میں کاٹنے کی طرح کھٹکنے لگا۔ تو حضور! آج حج اور قربانی کے موقع پر اتحاد امت کو کمزور کرنے والی طاغوتی قوتوں اور انکے آلۂ کار روشن خیال مسلمانوں کی سازشوں پر بھی تھوڑے سے غوروفکر کی ضرورت ہے۔خدا کا شکر ہے کہ اب فریضۂ حج کی ادائیگی کی روایتی سرگرمیاں بحال ہو چکی ہیں اور کرونا کے پھیلاؤ کے نئے ڈراوے کے باوجود لاکھوں فرزندانِ توحید میدان عرفات میں خیمہ زن ہوئے ہیں اور فریضہ حج و قربانی کی ادائیگی کے ساتھ خدا کے حضور سر بسجود ہیں۔ اس طرح مسلم امہ کا فریضۂ حج و قربانی کا ملّی جذبہ کمزور کرنے کی ان کی سازش دھری کی دھری رہ گئی ہے۔مگر اب رزقِ حلال کے چھانٹے پکڑ کر قربانی کے جائز اور ناجائز ہونے کے فتوے جاری کرنے والوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں کیونکہ اس عمل سے وہ مسلمانوں میں قربانی کا جذبہ کمزور کرنے کی الحادی قوتوں کی سازش ہی کامیاب بنائیں گے۔ بے شک رزقِ حلال بھی شعائر اسلامی پر عمل پیرا ہونے کا لازمی تقاضہ ہے مگر جب حکمرانوں نے اپنی رعایا کو خالصتاً رزق حلال پر گذر اوقات کرنے کے قابل ہی نہ چھوڑا ہو تو فتویٰ سازوں کو سب سے پہلے حکمرانوں کے دامن گیر ہونا چاہیے۔ اگر کوئی صدقِ دل سے جیسے تیسے قربانی کا فریضہ ادا کر رہا ہے تو یہ اس کا اور اللہ کا معاملہ ہی رہنے دیا جائے۔  حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے 9 ذی الحج‘ دس ہجری (سات مارچ 632عیسوی) کو میدان عرفان میں اپنے آخری خطبۂ حج میں جو درحقیقت انسانی حقوق کا چارٹر ہے، واضح طور پر ارشاد فرمایا کہ:
 میں تمہارے لئے دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں‘ قرآن اور میری سنت۔ اگر تم نے انکی پیروی کی تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔‘‘
ہم بحیثیت مسلمان حضرت نبی ٔ آخرالزمان محمد مصطفی ﷺکے آخری خطبۂ حج کے مندرجات کو اپنے جسم و جاں کا حصہ بنالیں تو یہی ہمارے لئے توشہء آخرت ہے۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...