لکھنے والوں میں اپنے نام کی طرح ممتاز لکھاری ممتاز مفتی نے کیا خوب لکھا ہے کہ ’’انسان کی شخصیت ایک گورکھ دھندہ ہے۔ ایک ایسا الجھاؤ جس کا سرا نہیں ملتا۔ میری دانست میں انسانی شخصیت کو پیاز سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ فرد کی حیثیت چھلکے کی ہے۔ چھلکے ہی چھلکے، چھلکے ہی چھلکے۔ ایک دوسرے سے نہیں ملتا، ایک دوسرے کی شکل قطعی طور پر مختلف… اگرچہ بظاہر وہ سب ایک سے نظر آتے ہیں۔ بظاہر سپاٹ مگر غور سے دیکھو تو ان میں رنگ کی دھاریاں ہیں۔ ہلکے مگر واضح خطوط ہیں۔منفرد بیل بوٹے ہیں۔ اگر آپ ان چھلکوں کے قریب جائیں تو آپ اشک بار ہو جائیں گے چونکہ ان چھلکوں میں دکھ کی تلخی ہے دکھ انسانی شخصیت کا جزو اعظم ہے دکھ انسانیت کا پایہ ستون ہے انسان کی مسکراہٹیں، مسرتیں، قہقہے، عیاشی بھرا جنون، آنسوؤں کی جھیل میں اْگے ہوئے کنول ہیں۔گہرائی کو مدنظر رکھیں تو انسانی شخصیت جادوگر کے ڈبے کی مصداق ہے۔ ایک ڈبہ کھولو تو اندر سے دوسرا ڈبہ نکل آتا ہے۔ دوسرا کھولو تو تیسرا نکل آتا ہے، تیسرا کھولو تو چوتھا۔ ڈبے میں ڈبہ، ڈبے میں ڈبہ۔ تضاد کو دیکھیں تو انسانی شخصیت فقیر کی گدڑی کی مانند ہے جس میں رنگ رنگ کے پیوند لگے ہیں۔ ہر ٹکڑا دوسرے سے مختلف ہے۔ تضاد ہی تضاد‘‘
بہت عرصہ بعد اْنکی یہ تحریر دوبارہ پڑھی تو بقول فراز ’’جو بھی کچھ یاد نہ تھا یاد آیا‘‘ والی کیفیت طاری ہو گئی۔ ساحر کو ’’جابجا کوچہ و بازار میں بکتے ہوئے جسم، دکھائی پڑتے تھے اور ہمیں وطن عزیز کی صورتحال دیکھ کر ہر سو پیاز کے چھلکے پھیلے نظر آئے۔ پیاز کے چھلکے، آنسو اور بس…!
وطن عزیز کے عین عہد جوانی میں ہی اسے اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کے خواب ہوا ہو گئے اور جگہ جگہ اپنی پسند اور ضرورت کے مطابق اسلام پر تجربات ہونے لگے تمام نقد سودا چند لوگوں کی پلیٹ میں اور سب اْدھار عوام کے کشکولوں میں … گل اور ثمر چند گھرانوں تک محدود اور ’’خانہ بر انداز چمن کچھ تو اِدھر بھی‘‘ کی عوامی صداؤں پر اسلامی بھائی چارے کے نعرے، زیادہ تکرار پر غداری کے اعزازات اور کفر کے فتوے … پچھلے حکمرانوں کی کوتاہیوں، غفلتوں اور بدعنوانیوں کے مرثیئے اور مستقبل کے حسین خواب مگر صرف خواب کہ آنکھیں کھولیں اور بستر سے اٹھیں تو وہی گھور اندھیرے، پیاز کے چھلکے، آنسو اور بس… جمہوریت مستحکم کرنے کے بلند و بانگ دعوے اور سیاسی جماعتیں موروثی جائیدادوں کی طرح تقسیم کئے جانے کے قصے اور آخر میں وہی پیاز کے چھلکے اور آنسو…
اداروں کی طرف دیکھیں تو وہ انصاف کی سبیلوں کی باتوں سے لبالب بھرے ہوئے، پہاڑوں سے ٹکرا جانے کی کہانیاں اور سچ دیکھیں تو پیاز، چھلکے اور آنسو…!
معاشرے کی طرف نگاہ دوڑائیں تو دین اور وطن کی خاطر سب قربان کرنے کے چرچے، ریاست مدینہ قائم کرنے کی آرزوئیں، گناہوں کا اعتراف، ہچکیاں لیکن حقیقت میں منافقت، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، جھوٹ، اقرباً پروری کے آسمانوں کو چیرتے بلند پہاڑ… انسانیت کی اْتنی ہی تعظیم کہ چیختی چلاتی دہائیاں دیتی ایمبولینس کو بھی راستہ نہ دینے والی حرکتیں، کم تولنے کیلئے نئے نئے بہانے اور پیمانے، جعلی ادویات کے تازہ تازہ حربے سرکاری پیسے پر عیش کرنے بلکہ خاندان والوں کو بھی کرانے کے ایک سو ایک طریقے، حقداروں کا حق مارنے کی وارداتوں کی بھر مار… بقول فیض
ناتوانوں کے نوالوں پر جھپٹتے ہیں عقاب
بازو تولے ہوئے منڈلائے ہوئے آتے ہیں
قومی سطح پر دیکھیں تو قرض کا بڑھتا ہوا مرض اور اشرافیہ کی بے لگام عیاشیاں… اس پر آئی پی پیز جیسے افسوسناک معاہدے، لوڈ شیڈنگ کے عذاب، اْجڑتی ہوئی صنعتیں، ڈوبتے صحت کے مراکز، غیر معیاری ادویات کی سجی سجائی دکانیں، کسی کے اشارہ آبرو پر
ڈاکٹری نسخوں پر غیر ضروری دواؤں کی بھرمار… پیاز ہی پیاز… چھلکے ہی چھلکے اور آنسو…
دفاتر میں مجبوروں، بے کسوں کی فائلوں سے سجی میزیں جو اس طرح ساکت پڑی ہیں جیسے موت کے بعد ہر ذی روح نے ہو جانا ہے۔ کوئی فریاد کرے تو دام بنائے کام کے مشورے… افسر شاہی کی اکثریت کی اکڑی گردنوں کے نیچے صرف پیاز کے چھلکے…
جس بھی پہلو پر غور کریں جو بھی گوشہ ننگا کریں ہر طرف پیاز کے چھلکے اور آنسو ہی آنسو ہیں۔ منیر نیازی تو کہہ کر چلے گئے کہ
منیر اس شہر پر آسیب کا سایہ ہے کہ کیا ہے
کہ حرکت تیز تر اور سفر آہستہ آہستہ
اگر وہ آج زندہ ہوتے تو شاید اپنے اس شعر میں ترمیم کرتے ہوئے لکھتے کہ ’’اور سفر ندارد‘‘
محترم قارئین! آپ ہی بتائیں، غور کریں کیا معاشرے اتنی گھٹن، اتنے چھلکوں اور اتنے آنسوؤں کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں کیا حقیقت پسندی سے دور منافقت، قومی خزانے پر ڈکیتی، خوشامد، اقربا پروری، میرٹ کی دھجیاں اْڑانے اور حقدار کو پچھاڑ کر آگے بڑھ جانے کی تگ و دو میں مصروف یہ بے ہنگم ہجوم زیادہ دیر رواں دواں رہ سکتا ہے؟
آخر اس کا حل کیا ہے؟ اتنی معاشرتی بیماریوں کا حل کسی ایک شخص کے پاس نہیں ہوا کرتا اور نہ ہی فرد واحد میں تلاش کرنا چاہئے جس طرح ہم سب نے ملکر معاشرے کو بیمار کیا ہے اسی طرح سب کو ہی ملکر اس کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ پہلا مرحلہ اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کا ہے اور اس تانک جھانک کے بعد فراموشی کی گہری سانس لینے کی بجائے حقیقت کے سفر پر روانہ ہونے کا ہے۔
ہم میں سے جو لوگ مفاد پرست ہیں، ذاتی فائدوں کے گند میں لتھڑے ہوئے ہیں وہ بھی یاد رکھیں پیاز کے چھلکوں پر بنائے گئے محلات پائیدار نہیں ہوا کرتے بلکہ تھوڑی سی تیز ہوا چلے تو ریت کی دیواریں بن جایا کرتے ہیں اور پھر عیش و عشرت کے جام لنڈھانے والوں کو کہیں چھت میسر نہیں آتی۔ بڑے بڑے شاہوں کا انجام یاد رکھیں… جو ملک کا غدار وہ دنیا بھر کا غدار جو مٹی کا نمک حرام وہ دنیا بھر کا نمک حرام… غرض … مٹی کے غداروں کی یہ دنیا نہ وہ دنیا… آخر میں ایک ’’دھڑام ہو جاتا ہے، کردار روٹھ جاتے ہیں! کہانیاں کہیں اور بسیرا کر لیتی ہیں اور غمناک آنکھوں میں فقط پچھتاوے ٹھہر جاتے ہیں۔
شخصیت پرستی کے سراب سے باہر آئیں فرد واحد کے پاس کوئی حل نہ جادو کا ڈنڈا جو پھیریں تو سب ٹھیک ہو جائے سب کو ملکر زور لگانا ہوگا کوئی ایک ناگزیر نہیں ہوا کرتا۔
چلتے چلتے سچ کا سفر کرنے اور آگے بڑھنے والوں کا ایک واقعہ سنتے جائیے، دوسری جنگ کے بعد فرانس کو عظیم بنانے والے چارلس ڈیگال کے پاس ایک وفد آیا اور لگا تعریفوں کے پل باندھنے ’’آپ نہ ہوتے تو نہ جانے فرانس کا کیا حال ہوتا؟ لوگ کیسے زندہ رہتے جانے ملک بھی بچتا یا نہیں‘‘ ڈیگال نے پہلے تو تحمل سے یہ سب کچھ سنا پھر چلتا ہوا قبرستان کی طرف کھلنے والی کھڑکی کے پاس آیا اور دونوں پٹ وا کر دیئے اور جواب دیا ’’یہ سب جو لیٹے ہیں ضروری تھے لیکن اپنا اپنا کام کرکے منوں مٹی تلے جا سوئے، قومیں صحیح راستے چْن لیں تو منزلیں پا لیتی ہیں اصل سیاست میں شخصیت پرستی کچھ معنے نہیں رکھتی۔کوئی ایک فرد ناگزیر نہیں ہوا کرتا۔
٭٭٭٭٭