عید مسرت و انبساط اور خوشی کے جذبے اور اس کے اظہار کا نام ہے عید کا دن ایک دوسرے سے ملنے اور گلے لگنے کا بھی دن ہوتا ہے لیکن جب سے موسم اور ملکی حالات کے تیور بدلے ہیں یار لوگ ایک دوسرے سے گلے ملنے کی بجائے ایک دوسرے کے گلے پڑتے زیادہ دکھائی دیتے ہیں روز بروز بڑھتی مہنگائی مایوسی بے یقینی اور مہنگائی نے بھی عید کی خوشیوں کو ماند کر کے رکھ دیا ہے عید الاضحی قربانی کی عید کہلاتی ہے کہ جس میں فرزندانِ توحید رسم ابراہیمی ادا کرتے ہیں ذوالحج کے مبارک مہینے میں حج کی سعادت حاصل کرتے ہیں اللہ کی رضامندی کے لئے اللہ کی راہ میں اپنی پیاری شے کو قربان کر دینا ہی دراصل عید الاضحی کا پیغام اور خواہشات کی قربانی ہی فلسفہ قربانی ہے حسن اتفاق یہ عید بجٹ کے فوراً بعد آ ئی ہے جب عوام بجٹ کے مابعد اثرات سے نبرد آزما کر
تو چلا ہائے گْل … میں پکاروں ہائے دل
کا راگ الاپتی نظر آ رہی ہے۔ ویسے بھی ہر حکومتی بجٹ کے بعد عوام یہی شعر گنگناتی ہے کہ
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا
ویسے تو موجودہ ملکی حالات اور روز افزوں مہنگائی نے عوام کو ناکوں چنے چبوانے کے ساتھ ساتھ خون کے آنسو رلا دیئے ہیں اشرافیہ کو ہر دفعہ نوازنے کی روایت اس بجٹ میں بھی برقرار رکھی گئی ہے عامتہ الناس پر سو فی صد ٹیکس لگا کر اشرافیہ کو دو سو فی صد مراعات کا حقدار اور مستحق ٹھہرایا گیا ہے اس عید قربان سے پہلے بھی بجٹ پر عوام کو قربان کر دیا گیا ہے اور عید قربان پر بھی بکروں کے ساتھ عوام بھی قربان ہوتی نظر آ رہی ہے قربانی کے جانوروں کی جسامت آ واز اور مالیت سے جہاں مالک کی حیثیت اور مالیت کا پتہ چلتا ہے اسی طرح عوامی بکروں کی حالت ِ زار سے بھی بیچاری عوام کی پتلی حالت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے مہنگائی کے بوجھ تلے دبی عوام کی دبی آواز کی طرح ان کے قربانی کے جانوروں کی آ وازیں دبی دبی ہیں جبکہ اشرافیہ والوں کی ببانگ دہل سنائی اور دکھائی دے رہی ہیں بجٹ میں بسمل کو بسمل اور بنانے اور پردہ نشینوں کے عاشق ہونے کی جھلک بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہے آئی ایم ایف کی مرغوب غذا سسکتی بلکتی عوام ہے اور جس طرح عالم اسلام اور اقوام پر غزہ کے حالات اور فلسطین کے مظلوموں پر ہونے والے مظالم کا کوئی اثر نہیں ہوتا اسی طرح آ ئی ایم ایف کو بھی عوامی مسائل اور مجبوریوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
آ ئی ایم ایف بھی ملکی اور حکومتی حلقوں کی طرح دوبئی لیکس کے نامی گرامیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے پتلی گلی سے نکلتا دکھائی دیتا ہے جبکہ عوام کی گردن پر اس کی چھری کی تیزی صاف دکھائی دے رہی ہے کہتے ہیں کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی ایک نہ ایک دن ضرور چھری کے نیچے آ ئے گی تو کچھ غلط نہیں کہتے کہ یہ مقولہ بجٹ میں بلبلاتی عوام کے لئے ہی استعمال کیا جاتا ہے جہاں حکومت اشرافیہ اور آ ئی ایم ایف کی کند چھری سے عوام کو ذبح کیا جاتا ہے سو اس بار عید قربان اور بجٹ پر ایک ساتھ عوام قربان ہوتی صاف نظر آ رہی ہے جس کی دوہری مبارک باد بنتی ہے۔
عید قربان کی ایک خاصیت چاند پر جھگڑا نہ ہونا بھی ہے جب سے لوگوں نے اپنے اپنے چاند دیکھ کر عید کرنے کے فارمولے پر عمل کرنا شروع کیا ہے زمینی چاند کی اہمیت اور مقبولیت بھی بڑھ گئی ہے جبکہ آسمانی چاند اور رویت ہلال کمیٹی کی کارکردگی اور اہمیت کم ہو کے رہ گئی ہے۔رویت ہلال کمیٹی کی کم نظری کی وجہ سے اس کی کارکردگی بھی مشکوک دکھائی دیتی ہے اور رویت ہلال کمیٹی گفتند نشستند برخواستند اور لذت کام و دہن کے اہتمام تک محدود ہو کے رہ گئی ہے عید قربان پر کئی یار لوگوں کے فریج بھی ان کی طرح شاد و آ باد ملتے ہیں افسران بالا تک رانیں پہنچانے کا سلسلہ بھی چلتا ہے اور غریبوں تک گوشت کی تقسیم کی بجائے اسے جمع کر کے فریج میں محفوظ کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ عید سے پہلے مہنگائی اور منافع کمانے والے مافیا نے من مانے دام وصول کرکے خوب عیدی اور ثواب کمایا ہے اور اب بجٹ کے بعد والی اس بڑی عید کے بعد بھی خوب موج اڑائیں گے کہ ان کی ہر روز عید ہے جبکہ عوام کے لئے ہر روز عید نیست کہ حلوہ می خورد یا لحم می خورد کا ناصحانہ پیغام ہی عید کا تحفہ ہے کہ اب عید رنگوں خوشبوئوں، پکوانوں ،جھلملاتے لباسوں ،مہندی کی مہک ،چوڑیوں کی کھنک اور بچوں کی خواہشات کی تکمیل کا نام نہیں بلکہ پٹرول کے سستا مہنگا ہونے کی خبروں ،ڈالر کا ریٹ بڑھنے کی دعاؤں اور بجلی کے ہوشربا بلوں کی ادائیگی کی سوچ بچار تک محدود ہو کے رہ گئی ہے ایسے میں لے دے کے عید مبارک ہی بچتی ہے سو ہر خاص و عام کو وڈی عید کی مبارکاں۔