عید مبارک ہو

آج عید کا دن ہے ۔بڑی عید ،بکرا عید،قربانی کی عید۔بچپن کی عید کو یاد کریں تو عید کا مطلب بہت سی خوشیاں ہوا کرتی تھیں۔آج کل لوگ عید کے موقع پر تین تین چار چارجوڑے کپڑے سلواتے ہیں لیکن ہمیں یاد ہے آج سے چالیس سال پہلے بہت سے والدین بچوں کوعید پر بھی سکول یونیفارم سلوا کے دیا کرتے تھے کہ نئے کپڑوں سے عید ہو جائے اور بعد میں سکول جانے کے کام بھی آئے۔عید کے موقع پرگھروں میںبہت زیادہ پکوان تو نہیں پکائے جاتے تھے لیکن سب گھر والے، بلکہ مامے،ماسیاں،چاچے تائے،پھوپھو ان کے بچے بھی دن بھر کسی نہ کسی کے دستر خوان پر ایک ساتھ بیٹھ کے کھایا ضرور کرتے تھے۔کوئی کھانے میں نقص نہیں نکالتا تھا اور کسی کو بڑا گوشت یا میٹھا بھی منع نہیں ہوا کرتا تھا۔عید کی نماز کے بعد بڑوں کو سلام کہنا،ان سے دعا لینا اور چھوٹوں کو عیددینا سب سے انمو ل لمحہ ہوا کرتا تھا۔بچوں کو عیدی بہت تھوڑی ملتی لیکن ان تھوڑے پیسوں سے بچے بہت سے خوشیاں خرید لیا کرتے تھے۔سب کہتے ہیں وہ وقت بہت اچھا تھا۔کاش بیتا سماں واپس لوٹ آئے۔لیکن نہ تو بیتا وقت واپس آتا ہے اور نہ وچھڑے لوگ واپس لوٹ کے گھرو ںکو آیا کرتے ہیں ۔بس یادیں رہ جاتی ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر یادیں اچھی ہوں تو انسان کا بڑھاپا اچھا گزر جاتا ہے ۔

جی! ہم آج کل اچھی یادوں کے سہارے زندگی کے مشکل دن گزار رہے ہیں ۔شاعر،کالم نگار اور لکھاری حکومتی بجٹ اور بحث میں کہیں نظر نہیں آتے۔اور پھر آج کے پاکستان میں عام آدمی کے لیے جینا مشکل تر ہوتا جارہا ہے ۔کوئی دن ایسا نہیں آتا کہ سرکار کی طرف سے عام آدمی کو نچوڑنے کا فارمولہ سامنے نہ آتا ہو۔بجلی تقسیم کار کمپنیوں سے معائدے کے نتیجے میں کس نے کتنی کمیشن لی یا کون کون سیاستدان ان کمپنیوں سے مستقل نفع سمیٹ رہے ہیں۔ اس کو اب عام آدمی بھی جاننے لگا ہے ۔لیکن بجلی بلوں میں صرف عام آدمی کے لیے مشکلات ہیں ۔پاکستا ن شاید دنیا کا واحد ملک ہوگا جہاں کوئی جنس زیادہ خریدنے پر دام بڑھ جاتے ہیں ۔بجلی تقسیم کار کمپنیوں اور حکومتوں کے نمائندوں نے اپنے کمیشن اور نفع کے لالچ میں ایسے کارنامے سرانجام دئیے ہوئے ہیں کہ عام آدمی پنکھے کے نیچے لیٹا بھی پسینے سے شرابور ہوجاتا ہے 
کہیں بجلی کے یونٹ دو سو سے زیادہ نہ بڑھ جائیں ۔پاکستان میں بڑے سے بڑے جرم کی مہینوں،ہفتوں بلکہ دنوں میں ضمانت ہوجاتی ہے لیکن جس غریب کے بجلی یونٹ صرف ایک بار دو سے زیادہ ہوجائیں اسے اگلے چھ مہینے بھاری شرع سے بل ادا کرنے کی ناقابل ضمانت سزا ہوجاتی ہے ۔اس سزا کی کہیں شنوائی ہوتی ہے نہ اپیل کی جاسکتی ہے۔حکومتی وزیروں ،مشیروں ،ججوں،جرنیلوں اور اشرافیہ کو مفت بجلی،پٹرول اور دوسری بہت سی سہولتوں کے بارے اب عام آدمی نہ صرف جان چکا ہے بلکہ اسے ناانصافی اور حق تلفی سمجھتے ہوئے اس پر لب کشائی بھی کرنے لگا ہے ۔یعنی جن سرکاری ملازموں کی تنخواہ اور ددوسری بہت سی مراعات حاصل ہیں انہیں ساتھ گاڑی،بجلی،پٹرول اور ٹیلی فون بل کی مد بھی لاکھوں ہر مہینے مہیا کیا جارہا ہے اور جن کی تنخواہ یا مزدوری گھر چلانے کے لیے بھی ناکافی ہے انہیں مہنگی بجلی، گیس،پٹرول اور ضروریات زندگی خریدنا پڑتی ہیں ۔ویسے تو ہر سال بجٹ عام آدمی کو پریشان کرتا ہے لیکن اس سال کے بجٹ کے بعد لگتا ہے سرکار عام آدمی کے لیے زندگی اور بھی مشکل بنانے کا عزم کیے ہوئے ہے ۔ہمارے وزیر اعظم نے بیان جاری کیا ہے کہ اب ہم آخری بار آئی ایم ایف سے قرض لے رہے ہیں اس کے بعد ملک کو اس قرض سے ہمیشہ کے لیے نجات دلا دیں گے۔یہ بیان سننے میں جتنا اچھا ہے اس کو عملی طور پر ہوتے دیکھنا اتنا ہی مشکل نظر آتا ہے ۔اصل قرض سے نجات تو تب مل گی جب ہم اس قرض پر لیا سود اتار پائیں۔اللہ نے سود کو حرام قرار دیا ہے اور سودی کاروبار کرنے والوں کو اللہ اور اس کے رسولؐ سے کھلی جنگ کہا ہے ۔لیکن اسلامی جمہوری ملک پاکستان میں بڑے دھڑلے سے نہ صرف سودی کاروبار ہورہا ہے بلکہ سود کی شرع دنیا کے بہت سے ملکوں سے زیادہ بیان کی جاتی ہے ۔عالمی مالیاتی اداروں سے بھاری شرع سود پر قرض حاصل کرنے کے بعد ان کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے حکومت اپنے شہریوں کو ذہنی پریشانی میں مبتلا کررہی ہے ۔جب سے ہمارے وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کے کہنے پرفائلر اور نا ن فائلر حکمنامہ جاری کیا ہے۔تب سے قوم کے اندر ایک عجب بے چینی کی کفیت پیدا کی ہوئی ہے اورعوام کے ہر طبقہ فکر کی طرف سے اس پر ہر قسم کے لطیفے بھی شیئر کیے جارہے ہیں لیکن کہیں کوئی سنجیدگی سے اس اہم مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش نہیں کررہا ہے ۔کیا ہی اچھا ہو کہ سب سیاستدان مل بیٹھ کے یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہر سال لاکھوں کی قربانی کرنے والے،حج و عمرے پر جانے والے،مہنگی گاڑیاں خریدنے والے، مہنگے برینڈز کے کپڑے،جوتے خریدنے والے اور شادی بیاہ پر لاکھوں خرچ کرنے والے لوگ حکومت کو ٹیکس دینے سے کیوں گھبراتے ہیں ۔اگر تھوڑی سی بھی کوشش کر لی جائے تو یہ نقطہ واضع ہوجاتا ہے کہ ہمار ا ٹیکس نظام اس قدر بوسیدہ اور پچیدہ ہے کہ کوئی بھی شہری اس نظام کا حصہ بننے سے پہلے ہزار دفعہ سوچتا ہے۔اور پھر اگر کوئی ایک بار فائلر بن جائے تو پھر اسے ساری عمر ٹیکس ریٹرن فائل بھرنی پڑتی ہے ۔دعا ہے سب کی عید مبارک ہو۔آخر میں عید کے حوالے سے اپنا ایک کلام آپ کی نظر کرتا ہے 
کتنی خوشیوں کو لایا کرتی تھی 
عید نغمے سنایا کرتی تھی
کیا عجب تھی وہ چوڑیوں کی کھنک 
ساز جیسے بجایا کرتی تھی
ہاتھ پر مہندیوں کی رونق تھی
 جو عجب گل کھلایا کرتی تھی 
اور مہندی لگے لال ہاتھوں سے
اپنا چہرہ چھپایا کرتی تھی 
یاد آتی ہے آج شدت سے
ماں جو میٹھا کھلایاکرتی تھی 
نیند آتی اگر عتیق انورؔ
عید لور ی ستایا کرتی تھی

ای پیپر دی نیشن