کسی بھی پاکستانی کے لئے ’ٹوینٹی ٹوینٹی‘ کچھ زیادہ دور کا منظرنامہ نہیں قرار پا سکتا! کیونکہ محض گیارہ برس ہر پاکستانی کے لئے فقط ’ایک‘ فیلڈ مارشل کے ’دورِ ارتقا‘ کے مرحلے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھ سکتا! لیکن ’وژن ٹوینٹی ٹوینٹی‘ ہمیں قومی تاریخ سے زیادہ پاکستانی کرکٹ کے ’دورِ ارتقا‘ کا حال بتاتا ’اشاریہ‘ نظر آیا!
ہمیں یوں لگا کہ ہم دو ہزار بیس کی سرما کے دھوپ بھرے چمکیلے چمکیلے دن اپنے ساڑھے چار برس کے ’پڑنواسے‘ کی انگلی تھامے ’قذافی سٹیڈیم‘ پہنچے ہوں اور اس کی تھکن اتارنے کے لئے اس میں ’ماضی‘ کے بارے میں جاننے کی خواہش بیدار کرنے کی خاطر کہا ہو ’بیٹا ! ہمارے زمانے میں یہاں میچ ہوا کرتے تھے!‘
’سچ؟‘ ہمارے پڑنواسے نے ہمیں مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا ہو اور ہم نے اسے یقین دلانے کی غرض سے کہا ہو ’بالکل سچ‘ بیٹا! ’بالکل سچ!‘ یہ ’قذافی سٹیڈیم‘ کہلاتا تھا اور یہاں ’کرکٹ‘ کھیلی جاتی تھی!
تو‘ آپ کے زمانے میں ’سبزی منڈی‘ کہاں ہوا کرتی تھی؟ ہمارے تصور کے پردے پر ایک حیرت بھری معصوم سی آواز پتھر کی طرح آ لگی اور ہم اپنے پڑنواسے‘ کی جگہ محض ’نواسے‘ کی انگلی تھامے! اسے سکول سے لے کر گھر کی طرف چل پڑے!
’وژن ٹوینٹی ٹوینٹی‘ ایک خواب ہے‘ جسے بہت دیدہ ریزی کے بعد دیکھا گیا ہے ’جوہری جمہوری پاکستان‘ پوری مسلم دنیا کے لئے ’رول ماڈل‘ کے طور پر اجاگر ہونا لازم ہے کیونکہ ’جمہوریت‘ اس ملک کے مزاج میں رچی بسی ہے! ’بھارتی گھس بیٹھئے‘ ہمیں ’جمہوریت‘ کی جگہ ’انتہا پسندی‘ کی طرف لے جانے کے لئے سرحد کے ساتھ ساتھ 29 قونصل خانوں میں متعین ہیں اور پاکستانی علاقوں میں مستقل ’مداخلت کاری‘ میں مشغول ہیں! جبکہ ہم ’اجمل قصاب‘ کے معاملے میں الجھتے چلے جا رہے ہیں!
مُسّد ’سدِ سکندری‘ کی طرح انہیں ڈھال مہیا کر رہی ہے! اور پوری مسلم دنیا کی نگاہیں ہم پر لگی ہیں! جبکہ پاکستان میں دو برس سے قائم ’رولے گولے‘ کے درمیان ایک ’سچی آواز‘ بار بار اٹھ رہی ہے مگر کوئی اس پر کان دھرنے کے لئے تیار نہیں! یہ آواز جناب شوکت ترین کی ہے! وہ کہہ رہے ہیں کہ تمام ’الیکٹرک کمپنیاں‘ نجی ملکیت میں دے دی جائیں گی! یہ کمپنیاں ناکام ہو چکی ہیں!‘
پاکستانی وفاق اور وفاق کی چار اکائیوں کے مشترکہ ملکیتی اداروں کے تحفظ کے لئے سینہ سپر سرحد اور بلوچستان میں ناکام ہو جانے کے بعد پنجاب کی حکومت برطرف کر کے ’گورنر راج‘ کے ذریعے یہاں ایسی حکومت مسلط کرنے کی کوشش بھی ناکام ہو گئی جسے ’غیر ملکی ایجنڈے‘ کے عوض ’کمیشن‘ حاصل کرنے کی خاطر ہدف بنایا گیا تھا!
جناب آصف علی زرداری کی ’’معاملہ فہمی‘ وعدہ ایفائی‘ مستقبل بینی‘ اچھے بُرے کی تفریق‘ حالات کی سنگینی کے ادراک‘ عوامی جذبات کے نباض‘ باہمی مشاورت سے یقینی فائدے پر فوری اتفاق اور ذاتی فوائد کی راہ میں حائل افراد پر ’گورنر راج‘ کے ’بال صفا تیل‘ کے بروقت استعمال کے ساتھ ساتھ ’جمہوریت کے استحکام‘ کے لئے ہر زیبا اور نازیبا اقدام کے نہ صرف قائل ہیں بلکہ عوام کو قائل کر لینے کے بھی اہل ہیں! کیونکہ ان کے نزدیک ’عوام‘ اس ملک کے چار ’کالم کار‘ ہیں!
جناب آصف علی زرداری پاکستان میں ’بھٹو دشمنی‘ کے ’واحد وارث‘ ہیں! پیپلز لائرز فورم کے ایک رکن نے ہمیں بتایا کہ ’بھٹو دوستی‘ کا پھل ’بھٹو خاندان‘ کھا رہا ہے اور ’بھٹو دشمنی‘ اکیلا ’زرداری‘ بھگت رہا ہے!
جناب آصف علی زرداری کے حامی وکلا کا یہ ’نمائندہ‘ ہماری طرح ایک شاعر طرح دار ہے اور اس کے تمام دوست اس کا بے حد احترام کرتے ہیں! ہمیں ان حضرت کی ’شاعری کی بلندی‘ سے آج بھی انکار نہیں مگر ان کی ’جاہ پرستی‘ کی پستی ہمیں کبھی ایک آنکھ بھی نہیں بھائی!
جناب رحمان ملک نے ’اجمل قصاب‘ کے معاملے میں ’پیش رفت‘ پر پوری دنیا سے داد سمیٹ کر جناب زرداری کی جھولی میں ڈال دی! اور یہ جھولی جس میں ڈھائی ڈھائی ٹن کے دو نااہل سیاست دان لاکھوں چھید کر کے زمین پر آ رہے تھے‘ ان چھیدوں میں سے یہ داد بھی مٹی میں ملا دینے کا کارن بن گئے! اب ’معاملہ‘ یہاں آ رکا ہے کہ سری لنکا کی ٹیم پر چڑھ آنے والے ’ہتھیارے‘ ان کی تحویل میں ہیں مگر وہ لب کھول کر نہیں دے رہے! شاید جناب رحمان ملک کی زبان صرف بھارتی حکام کے سامنے کھلتی ہے‘ پاکستانی عوام ان کے لئے ’ہونے نہ ہونے‘ کے درمیان لٹکتی شے کے سوا کچھ اور نہیں!
تصوف جناب زرداری کی گھٹی میں پڑا ہے اور جناب ممتاز علی بھٹو اہل تصوف اور ان کے پیرو کاروں کے بارے میں جناب زرداری سے کہیں زیادہ جانتے ہیں!
ہمیں تو جناب اعجاز بٹ کی فکر لاحق ہے! اور ’ٹوئنٹی ٹوئنٹی‘ تک ان کے ’قائم‘ نہ رہ سکنے کا رنج ہمیں ابھی سے کھائے جا رہا ہے! جناب آزاد انصاری نے کیا خوب کہہ رکھا ہے :
اتنی سی بھی تلافی اس وقت تک بہت تھی
پھر کوششیں کرو گے! اور فائدہ نہ ہو گا
ہمیں یوں لگا کہ ہم دو ہزار بیس کی سرما کے دھوپ بھرے چمکیلے چمکیلے دن اپنے ساڑھے چار برس کے ’پڑنواسے‘ کی انگلی تھامے ’قذافی سٹیڈیم‘ پہنچے ہوں اور اس کی تھکن اتارنے کے لئے اس میں ’ماضی‘ کے بارے میں جاننے کی خواہش بیدار کرنے کی خاطر کہا ہو ’بیٹا ! ہمارے زمانے میں یہاں میچ ہوا کرتے تھے!‘
’سچ؟‘ ہمارے پڑنواسے نے ہمیں مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا ہو اور ہم نے اسے یقین دلانے کی غرض سے کہا ہو ’بالکل سچ‘ بیٹا! ’بالکل سچ!‘ یہ ’قذافی سٹیڈیم‘ کہلاتا تھا اور یہاں ’کرکٹ‘ کھیلی جاتی تھی!
تو‘ آپ کے زمانے میں ’سبزی منڈی‘ کہاں ہوا کرتی تھی؟ ہمارے تصور کے پردے پر ایک حیرت بھری معصوم سی آواز پتھر کی طرح آ لگی اور ہم اپنے پڑنواسے‘ کی جگہ محض ’نواسے‘ کی انگلی تھامے! اسے سکول سے لے کر گھر کی طرف چل پڑے!
’وژن ٹوینٹی ٹوینٹی‘ ایک خواب ہے‘ جسے بہت دیدہ ریزی کے بعد دیکھا گیا ہے ’جوہری جمہوری پاکستان‘ پوری مسلم دنیا کے لئے ’رول ماڈل‘ کے طور پر اجاگر ہونا لازم ہے کیونکہ ’جمہوریت‘ اس ملک کے مزاج میں رچی بسی ہے! ’بھارتی گھس بیٹھئے‘ ہمیں ’جمہوریت‘ کی جگہ ’انتہا پسندی‘ کی طرف لے جانے کے لئے سرحد کے ساتھ ساتھ 29 قونصل خانوں میں متعین ہیں اور پاکستانی علاقوں میں مستقل ’مداخلت کاری‘ میں مشغول ہیں! جبکہ ہم ’اجمل قصاب‘ کے معاملے میں الجھتے چلے جا رہے ہیں!
مُسّد ’سدِ سکندری‘ کی طرح انہیں ڈھال مہیا کر رہی ہے! اور پوری مسلم دنیا کی نگاہیں ہم پر لگی ہیں! جبکہ پاکستان میں دو برس سے قائم ’رولے گولے‘ کے درمیان ایک ’سچی آواز‘ بار بار اٹھ رہی ہے مگر کوئی اس پر کان دھرنے کے لئے تیار نہیں! یہ آواز جناب شوکت ترین کی ہے! وہ کہہ رہے ہیں کہ تمام ’الیکٹرک کمپنیاں‘ نجی ملکیت میں دے دی جائیں گی! یہ کمپنیاں ناکام ہو چکی ہیں!‘
پاکستانی وفاق اور وفاق کی چار اکائیوں کے مشترکہ ملکیتی اداروں کے تحفظ کے لئے سینہ سپر سرحد اور بلوچستان میں ناکام ہو جانے کے بعد پنجاب کی حکومت برطرف کر کے ’گورنر راج‘ کے ذریعے یہاں ایسی حکومت مسلط کرنے کی کوشش بھی ناکام ہو گئی جسے ’غیر ملکی ایجنڈے‘ کے عوض ’کمیشن‘ حاصل کرنے کی خاطر ہدف بنایا گیا تھا!
جناب آصف علی زرداری کی ’’معاملہ فہمی‘ وعدہ ایفائی‘ مستقبل بینی‘ اچھے بُرے کی تفریق‘ حالات کی سنگینی کے ادراک‘ عوامی جذبات کے نباض‘ باہمی مشاورت سے یقینی فائدے پر فوری اتفاق اور ذاتی فوائد کی راہ میں حائل افراد پر ’گورنر راج‘ کے ’بال صفا تیل‘ کے بروقت استعمال کے ساتھ ساتھ ’جمہوریت کے استحکام‘ کے لئے ہر زیبا اور نازیبا اقدام کے نہ صرف قائل ہیں بلکہ عوام کو قائل کر لینے کے بھی اہل ہیں! کیونکہ ان کے نزدیک ’عوام‘ اس ملک کے چار ’کالم کار‘ ہیں!
جناب آصف علی زرداری پاکستان میں ’بھٹو دشمنی‘ کے ’واحد وارث‘ ہیں! پیپلز لائرز فورم کے ایک رکن نے ہمیں بتایا کہ ’بھٹو دوستی‘ کا پھل ’بھٹو خاندان‘ کھا رہا ہے اور ’بھٹو دشمنی‘ اکیلا ’زرداری‘ بھگت رہا ہے!
جناب آصف علی زرداری کے حامی وکلا کا یہ ’نمائندہ‘ ہماری طرح ایک شاعر طرح دار ہے اور اس کے تمام دوست اس کا بے حد احترام کرتے ہیں! ہمیں ان حضرت کی ’شاعری کی بلندی‘ سے آج بھی انکار نہیں مگر ان کی ’جاہ پرستی‘ کی پستی ہمیں کبھی ایک آنکھ بھی نہیں بھائی!
جناب رحمان ملک نے ’اجمل قصاب‘ کے معاملے میں ’پیش رفت‘ پر پوری دنیا سے داد سمیٹ کر جناب زرداری کی جھولی میں ڈال دی! اور یہ جھولی جس میں ڈھائی ڈھائی ٹن کے دو نااہل سیاست دان لاکھوں چھید کر کے زمین پر آ رہے تھے‘ ان چھیدوں میں سے یہ داد بھی مٹی میں ملا دینے کا کارن بن گئے! اب ’معاملہ‘ یہاں آ رکا ہے کہ سری لنکا کی ٹیم پر چڑھ آنے والے ’ہتھیارے‘ ان کی تحویل میں ہیں مگر وہ لب کھول کر نہیں دے رہے! شاید جناب رحمان ملک کی زبان صرف بھارتی حکام کے سامنے کھلتی ہے‘ پاکستانی عوام ان کے لئے ’ہونے نہ ہونے‘ کے درمیان لٹکتی شے کے سوا کچھ اور نہیں!
تصوف جناب زرداری کی گھٹی میں پڑا ہے اور جناب ممتاز علی بھٹو اہل تصوف اور ان کے پیرو کاروں کے بارے میں جناب زرداری سے کہیں زیادہ جانتے ہیں!
ہمیں تو جناب اعجاز بٹ کی فکر لاحق ہے! اور ’ٹوئنٹی ٹوئنٹی‘ تک ان کے ’قائم‘ نہ رہ سکنے کا رنج ہمیں ابھی سے کھائے جا رہا ہے! جناب آزاد انصاری نے کیا خوب کہہ رکھا ہے :
اتنی سی بھی تلافی اس وقت تک بہت تھی
پھر کوششیں کرو گے! اور فائدہ نہ ہو گا