2 مارچ2013ءکو حکومت پاکستان نے باقاعدہ ایک تاریخی معاہدے کے تحت گوادر پورٹ کے آپریشن کا چارج چین کی سرکاری کمپنی چائنہ اورسیز پورٹ ہولڈنگ لمیٹڈکے حوالے کر دیا اس موقع پر صدر پاکستان آصف علی زرداری نے کہا کہ گوادر کی بندرگاہ کی چین کےلئے تزویراتی اہمیت (Strategic Importance) بہت زیادہ ہے اس سے پہلے گوادر پورٹ کا انتظام و انصرام سنگا پور کی کمپنی PSA انٹرنیشنل کے پاس تھا اور اسکے ساتھ حکومت پاکستان نے معاہدہ کیا تھا کہ وہ پانچ سالوں میں اس پراجیکٹ پر525 ملین ڈالرز کی رقم خرچ کرے گی مگر اس نے اس عرصہ کے دوران اس پراجیکٹ پر ایک پائی بھی خرچ نہ کی الٹا وہ 15 ارب روپے کی مالیت کے سرکاری پلاٹ کی الاٹمنٹ مفت اپنے نام کروانے کی خواہش مند تھی۔ مگر سپریم کورٹ نے اس پر سٹے آرڈر جاری کر دیا ۔ چنانچہ چین کی کمپنی کے ساتھ معاہدے کے مطابق گوادر پورٹ کی ملکیت حکومت پاکستان کے پاس رہے گی جبکہ اس کا انتظام و انصرام اور آپریشن کی ذمہ داری چائنہ پورٹ ہولڈنگ کے ذمے ہو گی۔
گوادر پورٹ کی سب سے زیادہ سٹریٹجک اہمیت چین کیلئے ہے۔ چین کے دفاعی، تجارتی، علاقائی، مفادات کیلئے گوادر پورٹ اسکی شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ چین اب تک 198 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری سے کوسٹل ہائی وے تعمیر کر چکا ہے جو گوادر پورٹ کی کراچی سے ملاتا ہے اس منصوبے میں چین کی دلچسپی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ چین کے پاس گرم پانیوں کی کوئی بھی بندرگاہ نہیں ہے جو کہ تمام سال تجارتی جہازوں کی آمد و رفت کو جاری و ساری رکھے۔ چین کی شنگھائی پورٹ اسکے انڈسٹریل ایریا سے 4300 کلومیٹر دور ہے جبکہ گوادر پورٹ کا فاصلہ چین کے انڈسٹریل ایریا سے 2500 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جہاں گہرے سمندر کے گرم پانیوں کی موجودگی سارا سال تجارتی سرگرمیوں کو بحری جہازوں کے ذریعے قائم رکھنے کے قابل ہے۔ گوادر پورٹ کی تعمیر اور سرگرمیوں سے مغربی چین میں بھی بہت زیادہ ترقی ہو گی کیونکہ کاشغر سے گوادر پورٹ کا فاصلہ 1500 کلومیٹر ہے جبکہ کاشغر سے چین کی مشرقی کوسٹ 3500 کلومیٹر دور ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق گوادر پورٹ کے ذریعے چین کی ہزاروں کلومیٹر دور سے تیل اور گیس کو درآمد کرنے کے فاصلے کو کافی حد تک کم کرنے میں مدد گار ثابت ہو گی۔ چین کی60 فیصد توانائی کے ذرائع خلیج فارس کے راستے عموماً سٹریٹ آف ملاکہ سری لنکا کے ذریعہ پہنچتے ہیں جس کیلئے چینی بحری جہازوں کو 10,000 کلومیٹر راستہ طے کرنا پڑتا ہے۔ گوادر پورٹ کی وجہ سے یہ فاصلہ 2500 کلومیٹر رہ جاتا ہے اسی لئے زوننجی Zhao- Nangi چینی نیوی کے ڈائریکٹر آف جنرل سٹاف لاجسٹک ڈیپارٹمنٹ کا کہنا ہے ہمیں ہندوستان کی گوادر پورٹ کے معاہدے پر تشویش سے کوئی سروکار نہیں ہم ہندوستان کو بحیرہ ہند کو بھارتیوں کےلئے مخصوص نہیں سمجھتے ہیں۔
ہمارے لئے گوادر پورٹ نے خلیجی اور افریقی ممالک کیساتھ براہ راست رابطے کو ممکن بنا دیا ہے۔
قارئین اگر امریکہ ابنائے ملاکہ کو بلاک بھی کر دے تو چین کےلئے بحیرہ عرب کا تجارتی راستہ ہمیشہ کےلئے کھلا رہے گا۔ گوادر پورٹ کے ذریعے چین خلیج فارس میں تیل کی ترسیل کےلئے گزرنے والے تمام جہازوں کی نقل و حمل کو مانیٹر کر سکتا ہے اسکے علاوہ خلیج فارس اور خلیج عدن میں ہندوستان کی نیوی کی سرگرمیوں کو بھی نظر میں رکھا جا سکتا ہے اور مستقبل میں یہ چین کا دفاعی نقطہ نظر سے نیول بیس بھی بن جائیگا اور یہ توانائی کی ترسیل کا دروازہ بن جائیگا کیونکہ گوادر آبنائے ہرمز کے منہ پر واقع ہے۔
یہ خطہ ایک قیف کی مانند ہے اس قیف Funnel کے اوپر والا کھلا حصہ سنٹرل ایشیا اور چین کے مغربی حصے پر مشتمل ہے اور اس قیف کے تنگ حصے میں افغانستان اور پاکستان کا پورا خطہ آ جاتا ہے۔ اور اس قیف کے آخر پر گوادر پورٹ ہے۔ لہذا یہ قیف توانائی کی ترسیل کا دروازہ ہونے کی وجہ سے پورے خطے کی معاشی قیف ہے لہذا گوادر پورٹ اپنی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے سنٹرل ایشیا اور جنوب مغرب کے ساتھ ایک گیٹ وے کی حیثیت اختیار کرے گی اور یہ گیٹ وے دنیا کے تمام ممالک کا سنٹرل ایشیاءکے ممالک کیساتھ تجارتی روابط کا ایک سستا اور موثر ذریعہ بنے گا۔ سنٹرل ایشیائ، کی ریاستیں 1.6ملین مربع میل کے رقبے پر مشتمل ہیں کیسپین کے سمندری خطے میں 200 بلین بیرل تیل کے ذرائع اور 3,000 بلین کیوبک میٹرز گیس کے ریزروز ہیں چنانچہ افغانستان کے حالات ٹھیک ہونے کے بعد مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا، چین سمیت بیس سے زیادہ ممالک کے درمیان گوادر پورٹ کے ذریعے درآمدات اور برآمدات ہونگی۔
قارئین پاکستان گوادر پورٹ کی وجہ سے اس خطے میں سب ممالک سے زیادہ اہم جیوسٹریٹجک پوزیشن کا حامل ہے۔ جنوبی ایشیا، مغربی ایشیا اور سنٹرل ایشیا کی ریاستوں کے درمیان ٹرانزٹ ٹریڈ، تیل اور گیس کی پائپ لائنوں کی تعمیر کوسٹل ٹریڈ جیسی تجارتی اور صنعتی سہولتوں سے اس خطے کے تمام ممالک افغانستان، ترکمانستان، قازقستان، اومان، یو اے ای، سعودی عرب، ایران، قطر، چین میں معاشی خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہو جائیگا کیونکہ یہ آنے والے وقتوں میں دنیا کا سب سے اہم توانائی کا دروازہ ثابت ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان اور امریکہ کو گوادر پورٹ میں چین کی شراکت کسی صورت میں قابل قبول نہیں‘ لہٰذا ہندوستان بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکوں کی دہشت گردی کی کارروائیوں کی سرپرستی کر کے ہمارے منصوبوں میں چین کی دلچسپی ختم کرنا چاہتا ہے مگر پاکستان میں چین کے سفیر لیو جائن صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ہندوستان سمیت کسی بھی ملک کو ہمارے اور پاکستان کے درمیان معاہدے پر تشویش کی کوئی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے معاشی مفاد میں ہے جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا چین بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال سے پریشان ہے تو سفیر محترم نے کہا کہ قطعاً نہیں ہم پہلے ہی پاکستان کے ساتھ 120مشترکہ منصوبوں پر کام کر رہے ہیں اور حکومت پاکستان ہمیں مکمل تحفظ فراہم کر رہی ہے اور اس سلسلے میں ہمیں قطعاً کوئی پریشانی نہیں ہے۔
قارئین! اگر گوادر پورٹ کے ذریعے دنیا کے ممالک میں تجارتی لین دین شروع ہو گیا اور مختلف ممالک اپنی اپنی کرنسیوں میں لین دین شروع کریں گے تو پاکستان میں ڈالر کی موجودہ قیمت کافی حد تک کم ہو جائیگی اور اسکے علاوہ بلوچستان میں بہت سارے مقامی افراد کو روز گار حاصل ہو گا۔ گوادر پورٹ کے قیام نے پاکستان کی تزویراتی گہرائی میں بھی بے حد اضافہ کر دیا ہے کیونکہ یہ ہندوستان کی مشرقی سرحد سے 460 کلومیٹر فاصلے پر ہے اور ہماری نیوی کے اثاثے دشمن کی نظر اور رسائی سے کافی فاصلہ پر پہنچ جائینگے۔ پاک چائنہ نیول بیس کے قیام سے انڈین نیوی کی سرگرمیوں کو بحیرہ عرب میں مانیٹر کیا جا سکے گا۔ گوادر پورٹ میں پاکستان چین کے باہمی تجارتی تعلقات سے خطے میں جیوپولیٹیکل اور جیوسٹریٹجک توازن قائم کرنے میں خاصی مدد ملے گی جو امریکہ کا بھارت کی طرف یکطرفہ جھکاﺅ سے بگڑ چکا ہے۔