قومی اسمبلی ، وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کر کے اب پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک باب بن رہی ہیں۔ کل تک انہی اسمبلیوں کے ممبران اور کابینہ کے ارکان ملک کے سیاہ و سفید کے مالک تھے، اب ان سب کی قانونی حیثیت عام پاکستانی کے برابر ہے۔ان سب کا یوم حساب عام انتخابات کے دن ہو گا۔
ان پانچ سالوں کے دوران یوں تو وفاق، سندھ، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں مخلوط حکومتیں رہی لیکن عملاً حکمرانی کی کمانڈ اور کنٹرول پیپلزپارٹی کے پاس رہی۔ صرف پنجاب ایک ایسا صوبہ ہے ، جہاں پاکستان مسلم لیگ(ن) کے علاوہ کسی اور سیاسی جماعت کو مقتدر نہیں کہا جا سکتا۔اس طرح ہم جب ان پانچ سالوں کے دوران مجموعی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں تو پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا ہی تقابل کیا جاسکتا ہے۔
پیپلز پارٹی کی دور اقتدار کی خوبیوں میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کی قیادت نے ایسا طرز حکمرانی اختیار کیا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار کسی عوامی حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی۔ان کے دور حکومت میں آئینی ترامیم کر کے آمرانہ شقوں کو ختم کیا گیا اور پاکستان عملاً ایک وفاقی اکائی بنا۔صدر مملکت نے اپنے اختیارات رضا کارانہ طور پر وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کو دے دئیے جس سے پارلیمان مضبوط ہوئی۔ ججز کی تقرری کا اختیار بھی جوڈیشل کمیشن کو دینا قابل تحسین عمل ہے۔ دہشت گردی کی روک تھام، بچوں پر جسمانی تشدد روکنے اور خواتین کو ہراساں کرنے سے بچانے کے لیے قانون سازی کی گئی ، میڈیا پر کوئی پابندی نہ لگائی گئی۔گلگت ،بلتستان کو عوامی رائے دہی کا حق دے کر اسمبلی قائم کی گئی۔ بے نظیر انکم سپورٹس پروگرام، وسیلہ حق اور آغاز حقوق بلوچستان اس کے علاوہ پیپلز پارٹی نے اپنے اقتدار کے آخری دو ہفتوں میں دو ایسے جرا¿ت مندانہ اقدامات کئے جو انتہائی اہم ہیں،ان میں گوادر کی بندر گاہ کو چین کے حوالے کرنا اور ایران ،پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر عمل در آمد کا آغاز کرنا ہے۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت کی خوبیوں کا موازنہ اگر اس کی خامیوں سے کیا جائے تو ناقدین کی نظر میں خامیوں کا پلڑا بھاری نظر ہے ۔اس پورے دور میں ملکی معیشت میں ریکارڈ تنزلی آئی۔ قومی قرضے جو ان کے اقتدار میں آنے سے پہلے تقریباً چھ ہزار ارب روپے تھے وہ بڑھ کر تیرہ ہزار ارب روپے تک جا پہنچی۔ پیٹرول، ڈیزل، سی این جی اور عام استعمال کی غذائی اشیاءکی قیمتوں میں سینکڑوں گنا اضافہ ہوا۔ افراط زر کی شرح بڑھی، قومی پیداوار میں میں کمی واقعے ہوئی۔پاکستان روپے کی قدر شرمناک حد تک گر گئی، ڈالر 60روپے سے بڑھ کر 100روپے ہو گیا۔مالیاتی انتظام انتہائی برا رہا بلکہ فی الحقیقت قومی خزانے اور حکومتی اداروں کوبے دردی سے لوٹا گیا۔ کرپشن اور بدترین گورننس نے ملکی معیشت کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ پانچ سالوں کے دوران پانچ وزرائے خزانہ، پانچ سیکرٹری خزانہ اور سٹیٹ بینک کے چار گورنر تبدیل کیے گئے ۔قومی اداروں میں قوائد و ضوابط کے خلاف بھرتی اور ترقیاں دے کر اپنے من پسند افراد کو اہم عہدوں پر لگا گیا ۔ جس سے ان اداروں کی بنیادیں ہل کر رہ گئیں۔ پی آئی اے، ریلوے، سٹیل ملز ان کی زندہ مثالیں ہیں۔توانائی کے بحران نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی، عام آدمی کی عزت نفس کو بھی مجروح کیا گیا۔
ملکی تاریخ میں پہلی بار صدر اور وزیر اعظم اور کابینہ کے ارکان پر کھل کر کرپشن کے الزامات لگے، حتیٰ کہ ملک کی سلامتی اور اقتدار اعلیٰ کو گروی رکھنے کے الزامات میں صدر مملکت اور امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کو مطعون کیا گیا۔ امن و امان اور عوام کی جان و مال کے تحفظ کو ترجیح نہ دی گئی ۔ دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور انتہا پسندی کو فروغ ملا۔
پیپلز پارٹی کے اس پورے دور کو اگر چند فقروں میں سمویا جائے تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ اس دور میں ملک کے سیاسی ڈھانچے کی تشکیل کے لیے تو مثبت اقدامات کئے گئے لیکن عام پاکستانی شہری کو کچھ نہ ملا بلکہ اور اس کا جان و مال داﺅ پر لگا رہا۔ پیپلزپارٹی کے ممبران اور حکومتی ارکان نے ملکی خزانے کے اربوں روپے کو غیر قانونی طور پر اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے قومی تقاضے پورے کرنے کی بجائے ذاتی اور پارٹی کے مفادات کو ہی مقدم جانا۔
اور اب آئیے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب جس کی حکومت پنجاب میں رہی۔ صوبہ پنجاب آبادی کے اعتبار سے ملک کا 65فی صد ہے۔ اس طرح یہاںکی حکومت کی اہمیت کئی اعتبار سے وفاقی حکومت سے کم نہیں۔شہباز شریف صاحب کی حکومت کی خامیوں کا جائزہ لیں تو ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی جانب سے جاری کردہ سستی روٹی سکیم اپنے مقاصد پورے نہ سکی۔پنجاب میں رہائش پذیر اقلیتوں کو پورا تحفظ نہ دیا گیا اور دہشت گردی کی روک تھام کے عمل میں وفاقی حکومت کے تحفظات کو دور نہ کیا۔ پنجاب میں پہلے سے قائم تعلیمی اداروں کی حالت بہتر بنانے کی بجائے دانش سکولوں پر سرمایہ لگانا احسن قدم نہ تھا۔بسنت کے تہوار پر پابندی لگا کر لاہور اور پنجاب کی ثقافتی ترقی اور رنگینی کو کم کیا گیا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے دور اقتدار کی ان خامیوں کا تقابل جب ان کی حکومت کی خوبیوں سے کیا جا ئے تو یہ خامیاں ماند پڑ جاتی ہیں۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ میاں برادران گر عدلیہ کی بحالی کے عمل میں سنجیدہ نہ ہوتے اور لانگ لارچ کی شکل میں عدلیہ بحالی کی تحریک کو منظم نہ کرتے تو آج ملک کی سپریم کورٹ آزادانہ اور منصفانہ فیصلے نہ کر سکتی، اسی طرح اگر مسلم لیگ (ن) کی قیادت اصولی معاملات پروفاقی حکومت کا ساتھ نہ دیتی تو پیپلز پارٹی کی حکومت کسی بھی طور پر اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہ کر سکتی۔ ن لیگ نے ملکی سیاست سے اسٹیبلشمنٹ کے عزائم کو روکنے میں کلیدی کردار ادا کیا اس حوالے سے نواز شریف صاحب کا طرز و فکر اور عمل تمام سیاستدانوں کے لیے مثالی رہا ۔زرداری صاحب نے نواز شریف سے کئے ہوئے وعدوں کو توڑا لیکن ا نہوں نے ذاتی عناد کو قومی مفاد پر ترجیح دی۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت یا اس جماعت کے کسی بھی شخص پر یا صوبائی حکومت پر الزام لگایا بھی گیا تو نہ تو کوئی مدعی بنا اور نہ ہی میڈیا کو ثبوت دئیے گئے بلکہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے خود کو بین الاقوامی ادارے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے سامنے پیش کر کے دیانت کا سرٹیفیکیٹ حاصل کیا۔ پنجاب کی حکومت نے صوبے اور عوام کی ترقی کے لیے کئی منصوبوں کو مکمل کیا۔لاہور کی رنگ روڈ، میٹرو بس سروس جیسے منصوبوں کی تکمیل کسی خواب کے پورا ہونے سے کم نہیں۔لیپ ٹاپ سکیم، گرین ٹریکٹر سکیم، پنجاب کے شہروں میں ٹریفک کی روانی قائم رکھنے کے لیے انڈر پاس اور اوور ہیڈ پلوں کی تعمیر، ہسپتالوں کا قیام، پبلک سروس کمیشن کے تحت خواتین کے کوٹے کوبڑھانا ، میڈیا کی آزادی کے لیے "Freedom of Information Act"، ڈینگی مچھر کا خاتمہ یہ سب ایسے اقدامات ہیں جو ہر اعتبار سے قابل تحسین اور بہت حد تک حیران کن ہیں۔
ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے دور حکمرانی کے تقابل سے یہ بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ عام آدمی کو کچھ نہ مل سکا ۔لیکن پیپلز پارٹی کا حکمران طبقہ کروڑ پتی سے ارب پتی اور ارب پتی سے کھرب پتی بن گیا۔ ملک میں دہشت گردی لا قانونیت اور لوٹ مار کو نہ روکا جا سکا۔بین الاقوامی طور پر پاکستان کی عز ت و تکریم میںکمی واقع ہوئی ملک اندرونی طور پر غیر مستحکم اور بیرونی دنیا کی نظر میں کرپشن میں 33ویں نمبر آ گیاجبکہ دوسری طرف تقابلی طور پر ن لیگ کا پنجاب میں دور حکمرانی بہت بہتر رہا اور پنجاب حکومت کو گڈ گورننس کا سرٹیفیکیٹ ملا۔یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی اور قومی سروے رپورٹس آئندہ انتخابات میں ن لیگ کو حاوی قرار دے رہی ہیں۔