جمشید دستی نے پیپلز پارٹی چھوڑ دی، حنا کھر کے خلاف الیکشن لڑنے کا اعلان!
انہیں صنف نازک کے ساتھ پنجہ آزمائی مہنگی ہی نہ پڑ جائے۔ دستی صاحب نے ان کو کمزور حریف سمجھا تو پچھتائیں گے۔ حنا اور وہ بھی کھرآسانی سے ہار ماننے والی نہیں‘ بہرحال جعلی ڈگری ہونے کے باوجود مظفرگڑھ کے عوام نے دستی کے راستے میں پلکیں بچھائیں۔ دستی نے فری میں بس سروس چلا کر انہیں صلہ بھی دیا۔ حنا ربانی کو تو دو موقعوں پر ہی سکون میسر ہوا ....
اِک تِرے آنے سے پہلے
اِک تِرے جانے کے بعد
دستی کے جلائے گئے ننھے سے چراغ سے نہ کوئی الاﺅ بھڑکے گا نہ ہی کوئی چتا دہکے گی البتہ ان کی علیحدگی بارش کا مزید ایک قطرہ ثابت ہو گی اور بہت سارے سیاسی بٹیرے لوٹا بننے کی بجائے اپنی آزاد شناخت برقرار رکھنے کو ترجیح دیں گے۔ سیاسی لوٹوں کا حال تو ایسا ہی ہے ....ع
سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے عزت کے سوا
دستی کے پاس وفاداری تبدیل کرکے لوٹا بننے کی کافی منطقی دلیلیں تھیں لیکن اس نے ایسے تمام ٹوٹکوں کو رد کرکے صدا لگائی ہے ....ع
اُٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہو گا
حنا کھر نے بھی گذشتہ روز یوسف رضا گیلانی کے ساتھ مل کر الیکشن مہم شروع کر دی ہے۔ دیکھیں حنا اپنا رنگ دکھانے میں کامیاب ہوتی ہے یا دستی پہ چشتی رنگ چڑھتا ہے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
خیبر پی کے میں نگران وزیر اعلیٰ کا اعلان!
پشاور میں عید کا چاند بھی پہلے نظر آتا ہے اب نگران وزیر اعلیٰ کا چاند بھی پہلے ہی نکل آیا۔ پورے ملک میں ابھی نگران حکومت کا چاند متنازعہ ہے، لگتا ہے جس طرح ملک بھر میں دو تین عیدیں ہوتی ہیں ایسے ہی انتخابات بھی دو تین ہی ہوں گے۔ چاند دیکھنے والے مولویوں کی طرح اگر سیاستدان بھی اپنی اپنی دوربین لیکر نگرانوں کی چھان بین کرتے رہے تو پھر عیدِ جمہوریت منانے کی خواہش دھری کی دھری رہ جائے گی۔ بہت سارے لوگوں کی نبضیں چلنا آہستہ ہو گئیں جبکہ نیب کی کڑکی میں پھنسنے کے باعث کچھ کے دل دھڑک رہے ہیں۔ میڈیا کے پوچھنے پر کہتے ہیں کہ گھر جائیں گے ....
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ گھر جائیں گے
گھر میں بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
صاف ظاہر ہے پانچ سال فارغ تو نہیں بیٹھ سکتے کیونکہ .... ع .... اقتدار کا نشہ ہے کبھی آر کبھی پار
منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے کے لئے انسان کبھی میٹھی اور سلونی چیزیں کھاتا رہتا ہے ایسے ہی سیاست میں کبھی اقتدار کا نشہ تو کبھی اختلاف کا۔ جس طرح اندھے کے ہاتھ بیڑا لگ جائے جو حال وہ اس کا کرتا ہے آج چوہدری نثار بھی نگران وزیراعظم کے نام پر ایسا ہی کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ سندھ اور پنجاب میں بھی کچھ ایسا ہی ڈرامہ چل رہا ہے۔ بلوچستان میں تو ابھی تک اپوزیشن لیڈر ہے نہ ہی وزیر اعلیٰ کا وجود، وہاں پر نگران کا چاند پہاڑوں کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ دیکھیں گرہن کے ساتھ نکلتا ہے یا مکمل!
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
انتخابات قریب آتے ہی سیاسی شعبدہ باز متحرک ہو گئے ہیں : مسرت شاہین
ہمیں سیاسی شعبدہ بازوں کا تو علم نہیں لیکن مسرت شاہین اور شیخ رشید کافی متحرک ہیں۔ شیخ صاحب نے تو اعلان کر رکھا ہے۔ اگر اس مرتبہ الیکشن ہار گئے تو سیاست چھوڑ دونگا۔ شاید سیاست سے الوداع ہونے کے بعد وہ فلم انڈسٹری میں آ جائیں لہٰذا مسرت شاہین کسی نئی فلم کی منصوبہ بندی شروع کر دے کیونکہ جس فلم میں فرزندِ پنڈی ہو گا وہ کامیاب ضرور ہو گی۔ سگار کا کش لگا کر پھبتی کسنا تو شیخ صاحب کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، ویسے بھی انہوں نے پرانی ہیروئنوں کے ساتھ بڑا وقت گزارا ہے لہٰذا کافی پرانے سین دیکھنے کو ملیں گے۔ مسرت شاہین اور شیخ رشید کو سیاسی کی بجائے روحانی اتحاد کر لینا چاہئے، اگر روحانی اتحاد ہو جائے تو پھر مولانا فضل الرحمن لازمی ہاریں گے کیونکہ شیخ رشید پرانے سیاسی گرو ہیں وہ کوئی نہ کوئی شق نکال کر اپنی روحانی اتحادی کی ضرور دلجوئی کریں گے۔ مسرت شاہین اگر الیکشن جیتنا چاہتی ہیں تو اپنی پارٹی کو کسی سیاسی جماعت کے ساتھ باندھ لیں انہیں تو ہر کوئی لفٹ دینے کیلئے تیار ہو گا اور نہیں تو سونامی خان کے ساتھ ہی مل جائیں کیونکہ مولوی اور سونامی آپس میں کافی جگہ ٹکرا چکے ہیں۔ اسی لئے خان کے دل میں ضرور کوئی نرم گوشہ ہو گا کیونکہ ....
وجودِ زن سے ہے کائنات میں رنگ
اور دونوں پارٹیاں وجودِ زن سے خالی ہیں۔ ایک نے شروع سے پرائی پر گزارا کیا ہے دوسرے کا اللہ ہی حافظ ہے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
قومی اسمبلی کے 5 برس ، کیا کھویا؟ کیا پایا!
5 برسوں میں کھویا بہت کچھ لیکن پایا بہت کم۔ ڈرون کی بارش، کرپشن‘ لوٹ مار اور اقربا پروری نے ملک کی دیواریں کھوکھلی کر دی ہیں۔ پانچ برسوں میں گیس پائپ لائن منصوبہ، بینظیر انکم سپورٹ سکیم، میٹرو بس سروس اور لیپ ٹاپس کے علاوہ تو کوئی کام نظر ہی نہیں آتا۔ قومی اسمبلی کے 50 اجلاسوں میں 23 ارکان نے تو زبان ہی نہیں کھولی، پتہ نہیں گونگے تھے یا چپ کا روزہ رکھا ہوا تھا لیکن چپ رہنے کے باوجود ٹی اے ڈی اے سمیت پوری تنخواہیں اور فنڈز حاصل کئے۔ گونگے ارکان کیلئے بھی کچھ قانون ہونا چاہئے کہ اسمبلی میں جو بولے گا اسے ہی تنخواہ اور فنڈز ملیں گے باقیوں کو نہیں، پھر دیکھنا ہر کوئی چڑیوں کی طرح ”چُوں چُوں“ کرتا نظر آئے گا۔ 23 ارکان کو ان کے ضمیر نے بھی ملامت نہیں کی، ویسے جب ضمیر مردہ ہو جائیں اور دلوں پر مہریں ثبت کر دی جائیں تو کیا کِیا جا سکتا ہے۔ نہ جانے ایسے ”دانشوروں“ کو ووٹ کون دیتا ہے۔ 5 برسوں کی جمہوریت کے بعد دودھ، شہد‘ عدل و انصاف کی جو نہریں بہنی تھیں انہیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب ہماری نظروں کا دھوکہ ہے ....
یہ داغ داغ اُجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں