ان دنوں قومی ہاکی ٹیم اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ کھیل رہی ہے۔ پاکستان کو آسٹریلیا نے 0-6 سے شکست دی۔اگلے میچ میں روایتی حریف بھارت سے بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔دوسری طرف کرکٹ ٹیم جنوبی افریقہ میں موجود ہے۔ وہاں ان کی حالت بھی قابل رحم ہے مسلسل تین ٹیسٹ میچوں میں ناکامی کے بعد پہلا ون ڈے میچ بھی ہارچکی ہے ٹیم میں اختلافات اور لڑائی جھگڑوں کی خبریں بھی باعث تکلیف و شرمندگی ہیں۔غیر ملکی کوچ نے ٹیم کو سنوارنے کے بجائے بگاڑ دیا ہے، وطن عزیز کی کھیل کے شعبے میں تاریخ اتنی درخشاں ہے کہ ترقی یافتہ ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد پاکستانی کھلاڑیوں کے کارناموں کو دیکھ کر رشک کرتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ ایسا ملک جس میں کھیل کی سہولتیں کم ہیں، کسی بھی کھیل کے نچلی سطح پر کھلاڑیوں کی تربیت کیلئے کوئی مربوط نظام نہیں ہے اس کے باوجود پاکستان کے کھلاڑیوں نے سکواش ،ہاکی، ریسلنگ،کرکٹ اور سنوکر جیسے کھیلوں میں بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، ہمارے کھلاڑیوں کو ”ناقابل تسخیر“ ”فلائنگ ہارس“ ” دہشت گرد باﺅلر“ ” جادو گر باﺅلر“ ” مرد بحران“ ”سلطان آف سوئنگ“” برف کا پہاڑ“ جیسے القابات سے نوازاگیا۔ہاشم خان،روشن خان،جہانگیر خان،جان شیر خان،منیر ڈار،خواجہ ذکاءالدین،عبدالحمید حمیدی،بریگیڈئر(ر) عاطف،صلاح الدین،شہناز شیخ، اختر رسول،حسن سردار،شہباز سینئر،فضل محمود،حنیف محمد،امتیاز احمد ، اے ۔ایچ کاردار،ظہیر عباس،جاوید میانداد،عمران خان،آصف اقبال، عبدالقادر،سرفراز نواز،وسیم اکبر، وقار یونس،انضمام الحق،محمد یوسف،سعید انور،ثقلین مشتاق، شعیب اختر، بھولو خاندان،رحمانی والا خاندان،طاقت کا پہاڑ زبیر عرف جھارا، سنوکر کے عالمی چیمپئن محمد یوسف اور محمد آصف کے کارنامے آج بھی دنیا بھر کے کھلاڑیوں کیلئے مشعل راہ ہیں۔
آج سکواش میں بھی ہمارے کھلاڑی بین الاقوامی مقابلوںمیں برائے نام شرکت کرتے ہیں۔ورلڈ اوپن برٹش اوپن سکواش کے مقابلوں میں فتح اب صرف خواب ہی ہے۔ ہاکی میں عالمی کپ، اولمپکس اور چیمپئنز ٹرافی میں بھی گولڈ میڈل کی باتیں ہی سننے کو ملتی ہیں۔فٹبال جو کہ دنیا کا مقبول ترین کھیل ہے،پاکستان میں اس کھیل میں بھی ترقی کے بہت دعوے کیے جاتے ہیں لیکن کھیل میں نتائج کے حوالے سے کوئی بھی قابل ذکر کارکردگی نظر نہیں آتی۔بیڈ منٹن، سائیکلنگ،ٹینس، سوئمنگ،شوٹنگ، ریسلنگ، ٹیبل ٹینس غرضیکہ ہر کھیل میں بے پناہ ٹیلنٹ ہونے کے باوجود ہم عالمی سطح پر مار ہی کھا رہے ہیں۔ملک میں کھیلوں کے حوالے سے کتنا ٹیلنٹ موجود ہے اسکا ثبوت پنجاب یوتھ سپورٹس فیسٹیول میں قائم ہونے والے عالمی ریکارڈز سے سامنے آچکا ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ کھیلوںکے نظام کو چلانے والی قومی تنظیمیں دست و گریباں ہیں۔ پاکستان سپورٹس بورڈ اور پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کی لڑائی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔کھیلوں کی فلاح کیلئے کام کرنے کی ذمہ داری سنبھالنے والے ہی اس کے دشمن بنتے نظر آتے ہیں۔ہر کوئی اپنے پیشرو کو مسائل اور خرابیوں کی وجہ قرار دے کر انہی جیسے اقدامات کیے چلے جاتا ہے۔ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے لیکن بد قسمتی سے ہر حکومت نے اسے بے انتہا نظر انداز کیا ہے۔ کرکٹ سب سے امیر کھیل ہے ،کھلاڑیوں کے پاس بے پناہ دولت اور وسائل ہیں لیکن اسکے باوجود کارکردگی ایسی نہیں کہ ہم بڑی تعداد میںاچھی مثالیں نہیں دے سکتے، ہمیں کرکٹ میں اتنی مار نہیں پڑنی چاہئے۔ کروڑوں سالانہ خرچ کرنے کے باوجود ہم ہرکھیل میں مار کھا رہے ہیں آ ج ہر درد مند پاکستانی یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ آخر اسکا کیا فائدہ ہے؟
کھیلوں کا تابناک ماضی اب تاریک کیوں
Mar 17, 2013