جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمنٰ پاکستانی سیاست کا ایسا کردار ہے جس نے کبھی گھاٹے کا ’’سودا‘‘ کیا اور نہ ہی ’’نقصان‘‘ کی سیاست کی بلکہ ہمیشہ سیاسی سودے بازی میں ’’نفع نقصان‘‘ کو پیش نظر رکھا ہے وہ وزارت کے حصول کے لئے ’’جوڑ توڑ اور دبائو ‘‘ کے حربے کو استعمال کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے جس طرح مذاکرات کی میز پر چوہدری نثار علی خان کا کوئی ’’ثانی‘‘ نہیں اسی طرح مولانا فضل الرحمن کا سیاست میں سودا کرنے کا کوئی مقابل نہیں۔ مولانا فضل الرحمن اس بات کا برملا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ جن اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لئے’’سیاسست گردی‘‘ کر رہے ہیں ان میں وزارت کا قلمدان غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوتا ہے یہی وجہ ہے جمعیت علماء اسلام (ف) بعض وزارتوں میں غیر معمولی دلچسپی کا اظہار کرتی رہی ہے وہ وزارت کے معاملے میں اس حد تک سنجیدہ ہے کہ جب تک اسے اپنی مرضی کی وزارت نہ ملی حلف اٹھانے کے با وجود وزراء نے وزارتوں کے دفاتر کا رُخ نہیں کیا اسے مولانا فضل الرحمنٰ کی ذہانت کہئے یا ’’سیاسی دہشت گردی‘‘ کہ انہوں نے ایک بار پھر اپنے 5 ووٹوں سے ڈپٹی چیئرمین سینٹ کا منصب حاصل کر لیا قوم پرست جماعتیں اور آصف علی زرداری کے اتحادی دیکھتے ہی دیکھتے رہ گئے اور انہوں نے کمال مہارت سے اپنے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الغفور حیدری کو ڈپٹی چیئرمین کے منصب کے لئے حکومت اور اپوزیشن کا متفقہ امیدوار بنوا دیا اگرچہ مولانا فضل الرحمن کا آبائی حلقہ ڈیرہ اسماعیل خان ہے لیکن پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کا سربراہ ہونے کے ناطے ان کا بیشتر وقت اسلام آباد میں اقتدار کے ایوانوں میں ہی گذرتا ہے وہ اکثر واقعات پارلیمنٹ ہائوس کی مسجد میں نماز جمعہ پڑھتے ہیں، مسجد کے خطیب مولانا احمد الرحمن ان کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں امامت کا موقع فراہم کر تے رہتے ہیں بعد نماز جمعہ مولانا احمد الرحمن مسجد کے حجرہ میں مولانا فضل الرحمن کی صحافیوں کے ساتھ خصوصی نشست کا اہتمام کرتے ہیں جس میں کچھ ’’آن دی ریکارڈ‘‘ اور کچھ آف دی ریکارڈ‘‘ گفتگو ہوتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی نامزدگی کے حوالے سے ’’اندرونی کہانی سنائی‘‘ پہلے تو انہوں نے اس کہانی کو ’’آف دی ریکارڈ‘‘ قرار دے دیا لیکن پھر اس کہانی کو اخبار نویسوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا وہ جس طرح چاہیں استعمال کر سکتے ہیں سو میں ان کی اجازت سے ہی چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کی نامزدگی اور انتخاب کی اندرونی کہانی پیش کر رہا ہوں۔ چیئرمین سینیٹ کا بلامقابلہ انتخاب پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں غیر معمولی نوعیت کا حامل ہے۔ آصف علی زرداری کمال مہارت سے ایک ’’جیالے‘‘ کو ایوان بالا کا چیئرمین بنوانے میں کامیاب ہو گئے تو مولانا فضل الرحمنٰ نے ایک ’’بنیاد پرست‘‘ کو ڈپٹی چیئرمین بنوا لیا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے آصف علی زرداری کے ہاتھوں ’’سیاسی شکست‘‘ کھانے سے ’’بد مزہ‘‘ ہونے کی بجائے اسے ’’جیت جیت‘‘ میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ’’مذاکرات کی میز‘‘ پر کامیابی حاصل کرنے کی صلاحیت رکھنے والی شخصیت چوہدری نثار علی خان کو مذاکراتی عمل سے دور رکھنے کی وجہ سے ہی میاں نواز شریف نے ’’بظاہر‘‘ جیتی ہوئی جنگ ہار دی۔ آصف علی زرداری نے ایک ’’جیالے‘‘ کو چیئرمین سینیٹ بنوانے کے لئے وزیر اعظم محمد نواز شریف کی توثیق حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی تو زرداری ہائوس میں اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کے اعزاز میں دئیے گئے عشائیہ میں عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی خان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’ اگر حکومتی مذاکراتی ٹیم میں چوہدری نثار علی خان شامل ہوتے تو اپوزیشن جماعتوں کے لئے چیئرمین شپ کا حصول ممکن نہیں تھا‘‘ آصف علی زرداری نے اپنے گرد بیشتر سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کرکے سیاسی شطرنج کی بازی جیت لی تو حکومت کو ’’طوعاً وکرہاً ‘‘ میاں رضا ربانی جیسے ’’سخت گیر پارلیمنٹرین ‘‘کو چیئرمین کے طور پر قبول کرنا پڑا۔
میاں رضا ربانی نے آصف علی زرداری کی ناراضی کی پروا کئے بغیر پرویز مشرف سے حلف لینے سے انکار کر دیا تھا اور پھر مسلم لیگ (ق) کے ساتھ کابینہ کا رکن بننے سے معذرت کر لی تھی اسے وقت کا جبر کہیے یا کچھ اور’’ نواز شریف دشمنی‘‘ نے مسلم لیگ (ق) کو اس ’’جیالے‘‘ کو ووٹ دینے پر مجبور کر دیا جو ان کے ساتھ کابینہ میں بیٹھنے کے لئے تیار نہ تھا آصف علی زرداری نے زرداری ہائوس میں اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کے’’مشاورتی اجلاس‘‘ میں جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو بھی مدعو کیا تو اس موقع پر آصف علی زرداری نے ان سے میاں رضا ربانی کی حمایت کرنے کی درخواست کر دی جس پر مولانا فضل الرحمن نے واضح کر دیا کہ ’’وہ حکومتی اتحاد کا حصہ ہوتے ہوئے اپوزیشن کے امیدوار کی حمایت نہیں کر سکتے انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں شرکت سے معذوری کا اظہار کر دیا اور واضح کر دیا وہ حکومتی کیمپ سے اپوزیشن کیمپ میں چھلانگ نہیں لگا سکتے تاہم خاصی منت سماجت کے بعد جب وہ اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس کے اختتام کے بعد صرف عشائیہ میں شرکت کے لئے زرداری ہائوس جانے پر آمادہ ہو گئے۔ سابق صدر آصف علی زرداری ایک روز قبل مولانا فضل الرحمن کی اقامت گاہ پر ظہرانہ میں شرکت کر چکے تھے لہٰذا مولانا فضل الرحمن بھی اظہار تشکر کے لیے زرداری ہائوس میں کھانے کی دعوت کو نہ ٹال سکے مولانا فضل الرحمن صرف کھانے میں شریک ہو ئے آصف علی زرداری بڑے ’’مایوس‘‘ دکھائی دے رہے تھے انہوں نے مولانا فضل الرحمن کو بتایا کہ ابھی حکومت کا نمائندہ مل کر گیا ہے حکومت نے چیئرمین سینیٹ کے لئے اپوزیشن کے امیدوار کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا ہے انہیں خدشہ تھا کہ حکومت کامیابی حاصل اپنے تمام وسائل بروئے کار لانے کی کوشش کرے گی۔ آصف علی زرداری نے چیئرمین شپ کے لئے حکومت کی جانب سے مقابلہ کرنے کی بجائے مولانا فضل الرحمن کو میاں رضا ربانی کو قبول کرانے کا ٹاسک دے دیا جن کی اگلے روز وزیراعظم نواز شریف کے ظہرانے سے قبل ملاقات طے تھی۔ مولانا فضل الرحمنٰ نے ملاقات میں وزیراعظم نواز شریف کو چیئرمین شپ کے لئے میاں رضا ربانی کے نام کی توثیق کرنے پر راضی کر لیا اس میں اسفند یار ولی نے بھی اپنا کچھ حصہ ڈالا جن کی اسی روز ظہرانے سے قبل الگ ملاقات تھی۔ آصف علی زرداری نے اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں ڈپٹی چیئرمین کی نشست بلوچستان کو دینے کا اعلان تو کر دیا لیکن اس بات کا فیصلہ نہ کر سکے کہ کس جماعت کے سر پگڑی باندھی جائے۔ چوہدری شجاعت حسین کی رہاش گاہ پر سیاسی جماعتوں کا مشاورتی اجلاس منعقد ہوا تو مولانا فضل الرحمن یہ دیکھ کر پریشان ہو گئے کہ مذاکرات کے لئے سجائی گئی میز کے گرد بیٹھے سب ہی ڈپٹی چیئرمین کے امیدوار تھے۔ مولانا فضل الرحمن متنازعہ اجلاس میں یہ صورت حال دیکھ کر اٹھ کر چلے گئے اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں سینٹ کے ڈپٹی چیئرمین کیلئے کسی امیدوار پر متفق نہ ہو سکیں تو چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی آصف علی زرداری سے اپنی جماعت کے لئے ڈپٹی چیئرمین شپ مانگنے کے لئے چلے گئے لیکن انہیں کامیابی نہیں ہوئی۔ نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی بھی اس عہدہ پر نظریں لگائے بیٹھی تھی۔ آصف علی زرداری کی جانب سے ڈپٹی چیئرمین کے لئے امیدوار بارے میں اعتماد میں نہ لینے پر محمود خان اچکزئی اور میر حاصل بزنجو ناراض ہو گئے انہوں اپنی ناراضی کا اظہار قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ سے بھی کیا۔ جب آصف علی زرداری نے بلوچ ہونے کے ناطے قرعہ فال جے یو آئی (ف) کے سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری کے نام نکالا تو بلوچ قوم پرست جماعتوں نے اسے قبول کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا۔ جب آصف علی زرداری نے مولانا فضل الرحمنٰ کو ڈپٹی چیئرمین کی نامزدگی کی نوید سنائی تو مولانا فضل الرحمنٰ تذبذب کا شکار ہو گئے اور کہا کہ جب تک وزیراعظم نواز شریف اس نامزدگی کی توثیق نہیں کرتے اس وقت تک نامزدگی قبول نہیں کر سکتے، سو سید خورشید شاہ نے وزیراعظم نواز شریف سے مولانا عبدالغفور حیدری کو ڈپٹی چیئرمین بنانے کی توثیق کرا دی مولانا عبد الغفور حیدری 74 ووٹ لے ڈپٹی چیئرمین تو بن گئے لیکن تحریک انصاف کے ڈپٹی چیئرمین کے امیدوار شبلی فراز نے اپنی پارلیمانی قوت سے زائد9 ووٹ حاصل کر کے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا حکومت اور اپوزیشن میں پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والے کون ہیں؟ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہے گی بہت جلد مولانا عبدالغفور حیدری کو ووٹ نہ دینے والے ارکان کے نام منظرعام پر آ جائیں گے اس کے لئے چند دن انتظار کرنا پڑے گا۔