اڑتی ہوئی خبر ہے زبانی طیور کی کہ سی ایس ایس بارے اصلاحاتی کمیٹی جو وفاقی وزیر احسن اقبال کی سربراہی میں سرگرم عمل تھی، کی رپورٹ میں وزیر اعظم ہاﺅس نے NOلکھ دیا ہے اب یہ کمیٹی اپنے سفارشات کی قدر و قیمت کا احساس دلوانے کے لیے دوبارہ کوشش کرے گی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک دیرینہ عوامی مطالبے پر وفاقی سیکرٹریوں اور وزیر با تدبیر کی ورزش و تحقیقی کو کیوں رائیگاں کر دیا گیا؟ شاید بی۔اے کی ڈگری کا سیاسی وزن آڑے آ گیا وگرنہ تو دنیا چاند تاروں سے بھی آگے کی سوچ رہی ہے۔ ٹیلنٹ کی تلاش میں کوئی رکاوٹ ہونی ہی نہیں چاہیے۔ اصولاً سی ایس ایس کی حد عمر 35سال ہونی چاہیے کیونکہ نوکری نہ ملنے والے محروم فٹ پاتھیوں کا اتنا تو حق بنتا ہے کہ وہ اپنے ٹیلنٹ کو قسمت کی کسوٹی پر ایک آدھ بار آزما تو لیں جس شخص کی جوانی اور کارآمد زندگی کے دوچار سنہری سال نوکری کی تلاش یا تعلیم کے حصول میں کٹ جائیں اسے ابتدائے زیست میں ہی قسمت کا دروازہ نہ کھلنے کی سزا تو نہیں ملنی چاہیے۔ چھوٹی موٹی نوکری یا پرائیویٹ جدوجہد سے حاصل شدہ تعلیم انسان کو اچھوت یا دلت تو نہیں بنا دیتی بلکہ یہ جدوجہد تو انسان کو کندن بنا دیتی ہے۔ شاید اسی بناءپر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تحقیق ترقی نے اپنے تازہ ترین سروے میں یہ کہا ہے کہ پاکستان میں مراعات، قرضوں اور اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کے زیادہ تر مواقع بالآخر اشرافیہ کے حصے میں آتے ہیں۔
ملازمت چھوٹی ہو یا بڑی اس کے لیے مخصوص تعلیمی قابلیت کی ضرورت ہوتی ہے ایک وقت تھا جب میٹرک کی سند رزق کی ضمانت ہو ا کرتی تھی مگر آج بی اے کی ڈگری بھی نہ تو یہ اثر رکھتی ہے نہ عزت و وقار، بلکہ شاید کوئی بھی ڈگری فی نفسہ نوکری کی ضامن نہیں ہے۔ انٹرن شپ کا تصور چند مخصوص مہنگے اداروں کے ساتھ منسلک ہے وگرنہ یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور تعلیمی ترقی کے حکومتی دعوے ایک طرف اور روز افروں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور اسی رفتار سے بڑھنے والی بے روزگاری دوسری طرف! صورت حال یہ ہے کہ ملک کی نصف آبادی آج بھی کوری چٹی ان پڑھ ہے۔ بچوں کی نصف تعداد سکول جاتی ہے جس میں سے آدھے پرائمری کراس نہیں کر پاتے۔ ان میں سے صرف دس فیصد طلباءکالج اور یونیورسٹی کا منہ دیکھ پاتے ہیں پھر بھی ہر سال انجینئر، ڈاکٹر، وکیل، استاد بننے کے لیے لاکھوں نئے چہرے افق پر مانند کہکشاں طلوع ہوتے ہیں مگر معاشرہ سب کو باعزت روزگار دینے کی سکت نہیں رکھتا۔ سو ہر شعبہ زندگی فارغ التحصیل طلباءکی کثیر فارغ بے روزگار تعداد سے اٹا پڑا ہے۔ اچھے بھلے ڈگری ہولڈرز روٹی کمانے کے چکی میں محنت مزدوری کرنے اور بعض اوقات خود کشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ایسے کٹھن اور حوصلہ شکن ماحول میں نوکری کی امید لگا کر تعلیم حاصل کرنا وہ عذاب ہے جس میں متوسط اور نچلا طبقہ ہمیشہ سے مبتلا ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے مافیا بن کر تعلیم کو فائیو سٹار عیاشی میں تبدیل کر دیا ہے جو لوگ اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو اس عیاشی کا اہل بناتے ہیں انہیں سخت جان لیوا مقابلے کے بعد لاٹری کے ٹکٹ کی طرح میڈیکل انجینئرنگ میں داخلے کا چانس تو مل جاتا ہے مگر اس مقابلے میں ٹیلنٹ کا حشر افریقہ کے جنگلوں میں ہونے والی بقائے ذات کی مار دھاڑ سا ہوتا ہے یہاں زندگی کی دوڑ میں بھاگتے ہوئے ریوڑ اپنے ہی پاﺅں میں کچلے جاتے ہیں کچھ ندی نالوں کی تند تیز لہروں کی نذر ہو جاتے ہیں جوکنارے لگتے ہیں ان پر گھات میں بیٹھے گرگے اور درندے جھپٹ پڑتے ہیں۔
تعلیم کے کٹھن مراحل کے بعد نوکری کے لیے کوئی بھروسہ مند ٹھوس انتظام دکھائی نہیں دیتا۔ لیپ ٹاپ یا پیلی ہری ٹیکسی اس مرض کا علاج ہر گز نہیں ہے بھئی ہنر مند تعلیم یافتہ غریب نوجوان کو کام چاہیے کام! ایسا کام جو اس کے دونوں ہاتھوں اور ذہن کو اپنی صلاحیت دکھانے کا موقع دے! دور دور تک کوئی ادارہ اس شدید ضرورت کا مداوا کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ تھک ہار کر فوج ہی وہ واحد ادارہ ہے جہاں سپاہی سے لیکر افسر کی بھرتی میں شفافیت اور معیار دکھائی دیتا ہے۔
یوں تو ہر صوبے میں پبلک سروس کمیشن ہے لیکن بیشتر نوکریاں بالا ہی بالا تھرو پراپر چینل بندر بانٹ کے ذریعے سیاست کی نذر ہو جاتی ہیں۔ وفاقی سطح پر بھی میرٹ کی پامالی معمول کی بات ہے۔ اب ایسے میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ ہونے والے سی ایس ایس کے امتحان پر سالہا سال سے مسلط عمر کی حد وہ بیریئر ہے جس کی قطعاً کوئی ضرورت اور جواز نہیں ہے۔ وزیر اعظم کو اس معاملے میں فوری مداخلت کرنی چاہیے اور تفصیلی بریفنگ کے بعد عوامی امنگوں کے مطابق فیصلہ فرمانا چاہیے۔