تاریخ سے ملاقات۔۔۔ بہ اندازِ دگر

بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ پر اپنے اثرات چھوڑ جاتے ہیں۔ قلم کاروں میں انکی تعداد اور بھی کم ہے۔ ان میں بھی صحافت سے تعلق رکھنے والے تو بہت کم ہوں گے جنہوں نے وقت کی باگیں تھام کر واقعات کا رخ موڑا۔ گا ہے تاریخ کی منہ زور موجوں کے تموج پر سوار ہو کر بنجر قدیم پر نئے دریا بہا دیئے۔

الطاف حسن قریشی کا شمار ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔
اس وقت جب میں انکے انٹرویوز ایک کتابی مسودے کی شکل میں دیکھ رہا ہوں، تو گزشتہ نصف صدی کا سارا منظر نامہ میری آنکھوں میں گھوم جاتا ہے۔ آج کی اودھم مچاتی صحافتی ہڑبونگ میں شاید یہ نسل بہت کچھ بھول چکی ہے اور نہیں جانتی کہ ان کا نک سک درست رکھنے میں کس نے کیا کردار ادا کیا ہے۔ اگر قریشی صاحب جیسے لوگ نہ ہوتے، تو جانے ہم کس عالم میں جی رہے ہوتے اور وہ تو اس قبیلے کے سردار تھے، اس کارواں کے قافلہ سالار۔ اس ٹیکسال سے کتنے ہی سکے ڈھل کر نکلے ہیں جو اپنے اپنے مقام پر سکہ رائج الوقت ٹھہرے۔ انکی کامیابی کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ انکے مخالف ان سے غلط سلط باتیں منسوب کر کے بھی مطمئن نہیں ہو پاتے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ انکے اس مخالف کے اثرات کتنے گہرے اور دور رس ہیں کہ ان کا تعاقب مشکل ہے۔ انہوں نے ایک زمانے پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ کیا زمانہ تھا جب ان کا نام نہ صرف عام پڑھنے والوں میں مقبول ہو رہا تھا، بلکہ اس ملک میں اقتدار کے سرچشموں پر قابض لوگ بھی ان تحریروں کے انتظار میں رہتے تھے۔ عوام میں وہ ہر دلعزیز، سیاست دان انکے عاشق، افسر شاہی انکی مداح اور فوج میں انکی پذیرائی۔ یہ پذیرائی تو اس حد تک تھی کہ ضیاء الحق کو گمان گزرا کہ اس شخص کے ایک آدھ اشارے سے کہیں فوج میں اس کیخلاف ’بغاوت‘ نہ ہو جائے۔ اسی خوف کے طفیل انہیں یہ اعزاز حاصل ہوا کہ بھٹو کے بعد ضیاء الحق کی جیل کاٹنا پڑی۔ وہ اس لحاظ سے کامیاب رہے کہ انکے نظریات و افکار آج بھی ہمارے خون اور گودے کا حصہ ہیں جنہیں کوئی بھی ہمارے جسد سیاست و ثقافت سے ہزار جتنوں کے باوجود الگ نہیں کر سکتا۔ اسی لئے میں نے کہا کہ یہ سر زمین ایسی نہ ہوتی اگر اسکی آبیاری ایسے لوگوں نے نہ کی ہوتی۔وہ بلاشبہ ایک ایسی شخصیت ہیں جنہیں عبقری (legend) کہا جاتا ہے۔
اس مرحلے پر میرے لئے ایک مشکل تو یہ ہے کہ اس قسم کا تجزیہ آسان نہیں ہوتا، جہاں آپ کو وقت کی تہوں کے اندر اتر کر دیکھنا پڑے۔ پھر ایک ایسے شخص کیلئے تو اور بھی مشکل ہے جس نے اپنے سفر کا آغاز ہی اس شخصیت کے زیر سایہ کیا ہو۔ آپ چاہیں بھی تو خود کو اس سائے سے الگ نہیں کر سکتے۔۔۔ چاہے آپ کا اپنا قد کتنا ہی بڑا کیوںنہ ہو جائے۔ مگر یہ ایک قرض بھی ہے اور فرض بھی جسے ادا کرنا اپنی ہی ذات کے بعض گوشوں سے پردہ اٹھانے کے اور اپنے عہد کے شعور کو سمجھنے کے مترادف ہے۔
بات پھیلتی جائے گی، یہاں اس کی گنجائش ہے نہ ارادہ۔ اس لئے آسانی کیلئے اپنے گرد ایک چار دیواری بنا لیتے ہیں۔ ابتدا ہی میں جان لیتے ہیں کہ ہمیں کن سوالوں کے جواب درکار ہیں۔ وہ چار پہلو یہ ہیں:
1۔ انٹرویوز کے حوالے سے انکی اسلوبیاتی تحسین
2۔ تاریخی پس منظر میں ان کی اہمیت
3۔ تاریخ صحافت میں ان کا کردار
4۔ پاکستان کی تہذیبی شناخت پر ان کے اثرات
اب میں ان سوالات کے الگ الگ جوابات نہ دے پائوں گا کہ اس کیلئے تو ایک دفتر درکار ہے تاہم چند اشارے جو اوپر آ چکے ہیں اور چند وضاحتیں جو اب کی جا رہی ہیں، ایک خاکہ تیار کر پائیں گی جس کے پس منظر میں ہم اس کتاب کا مطالعہ زیادہ بہتر انداز میں کر سکیں گے۔
اردو ڈائجسٹ کا آغاز پاکستان کی صحافت ہی میں نہیں، ہمارے تہذیبی سرمائے میں ایک معجزے سے کم نہ تھا۔ جس وقت ہماری صحافت ایک خاص انداز کے فارمولوں پر چل رہی تھی، شاید قریشی صاحب کے دل میں یہ خیال آیا ہو کہ ہم مغرب کا مقابلہ کیوں نہیں کر سکتے۔ ’ریڈرز ڈائجسٹ‘ کا ماڈل پرکشش تو تھا، مگر ہمارے اہل دانش نے اسے اپنے ہاں دریافت کرنے کی کوشش نہ کی تھی۔ شاید اسی خواہش نے انہیں یہ تجربہ کرنے پر مجبور کیا ہو گا۔ میں اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ انہوں نے کیسے کم وسائل سے اتنے گراں قدر اور قیمتی منصوبے کا آغاز کیا۔ بتانا یہ چاہتا ہوں کہ انہوں نے ثابت کر دیا کہ ارادہ اور عزم ہو تو جوئے شیر لانا ایسا کارے دارد بھی نہیں۔ یہ اردو صحافت میں شاید پہلا جدید تجرباتی معرکہ تھا جو انہوں نے سر کیا۔
ایک مشکل اور تھی۔ الطاف صاحب نے یہ کام کسی صحافتی مہم جوئی کے طور پر تو کیا نہ تھا۔ انکے دل میں جو خوابوں کی دنیا تھی، اس کا اظہار بھی کرنا چاہتے تھے۔ ڈائجسٹ کی تنگنائے میں اسکی گنجائش کہاں تھی۔ وہ اداریہ لکھتے یا اپنا خصوصی تجزیہ ایک خاص انداز میں تحریر کرتے۔ ایسے میں انہیں کہیں یہ خیال آیا ہو گا کہ انٹرویوز کا وسیلہ نئی راہیں کھول سکتا ہے، اس پیغام کو زیادہ دور تک لے جا سکتا ہے اور لوگوں کی دلچسپی کا سبب بن سکتا ہے اس کیلئے ضروری تھا کہ ان انٹرویوز کو ڈائجسٹ کے مزاج سے ہم آہنگ کیا جائے۔ آدمی میں صلاحیت ہو تو وہ راہیں تراش لیتا ہے۔ الطاف صاحب نے خود ان انٹرویوز کو ’ملاقاتی خاکے‘ کہا ہے۔ غالباً یہ ترکیب پہلی بار ان کیلئے اردو کے ممتاز نقاد وقار عظیم نے استعمال کی تھی۔ یہ اصلاح انکے انداز اور اسلوب کا نچوڑ ہے۔ سوال جواب کا انداز اپنانے کے بجائے، انہوں نے اسے اپنے قارئین کیلئے دلچسپ بنانے کی ٹھانی اور ایسا کامیاب تجربہ کر ڈالا کہ اردو صحافت آج تک اس پر نازاں ہے۔ بنیادی طور پر الطاف صاحب محض صحافتی مزاج کے حامل نہ تھے، بلکہ شاندار ادبی ذوق رکھتے تھے۔ ان کا یہ ذوق اس وقت کام آیا اور اس نے ان ملاقاتی خاکوں میں جان ڈال دی۔
الطاف صاحب کی پیاس صرف اس سے تو بجھ نہ سکتی تھی کہ وہ ہر ماہ محض ایک شخصیت پر بات کر کے مطمئن ہو جاتے، وہ تو ملک میں پھیلے ہزاروں ناسوروں کو چھیڑنا اور لاکھوں خوبصورتیوں کو اجاگر کرنا چاہتے تھے۔ مثال کے طور پر یہ ہو سکتا ہے کہ انٹرویو کیلئے جاتے ہوئے انہیں پی آئی اے کی کارکردگی کھلی ہو۔ وہ اپنی اسلوبیاتی تکنیک سے کام لیتے ہوئے اس معاملے کو بھی اپنے خاکوں میں پرو جاتے۔ انہوں نے کینوس بڑا وسیع کر لیا تھا، مگر یہی تو ان کا اصل امتحان تھا۔ اکیلا ڈائجسٹ اور چار سو پھیلی دنیا کے رنگ! وہ اکیلے ہی اپنے قاری کو سب سے آشنا کرتے جاتے۔ کہیں پھول اور کہیں کانٹے، کہیں زہر میں بجھے تیر، کہیں شہد میں رچی باتیں، کہیں بلندی، کہیں پستی، بڑی روانی سے وہ اپنے قارئین کی نظر کرتے جاتے۔ یہ انٹرویو خود ایک ’ڈائجسٹ‘ ہوتے، بہت کچھ کانچوڑ چٹکیوں میں بیان کر دیتے اور آدمی کو پتہ بھی نہ چلتا کہ وہ ’سیب‘ گننے کے چکر میں ’حساب‘ سیکھ گیا ہے۔
اس وقت تک صحافت میں ادیبانہ زبان کا مطلب خطیبانہ زبان ہوا کرتا تھا۔ مولانا ظفر علی خاں تو اس کے توانا نمائندہ تھے ہی مگر ان دنوں آغا شورش کاشمیری کا طوطی بولتا تھا جو اپنی مخصوص احراری خطیبانہ زبان کے زور پر ڈنکے بجا رہے تھے۔ انکے پیچھے ایک تاریخ تھی، تاہم الطاف صاحب نے اپنے لئے ایک نئی راہ تراشی۔ انہوں نے خطابت کے بجائے غنائیت کو زیادہ مفید مطلب پایا۔ شاعری ہو یا کوئی تحریری اسلوب، یہ رنگ اپنا حسن تو رکھتا ہے۔ ذرا تصور کیجئے جب آپ سیاسی، فکری اور سماجی معاملات کو غنائی انداز میں بیان کرنا چاہیں گے، تو صحافت میں اسکی کیا شکل بنے گی۔ فیض جیسا شاعر بھی جو اپنی رومانی انقلابیت کی وجہ سے شہرت کے بام عروج پر ہے، اپنی صحافت یا نثر میں اس اسلوب کا خطرہ مول نہ لے سکا، جو ان کی شاعری سے مخصوص تھا۔ الطاف صاحب نے یہ کام کر دکھایا اور ایک نسل کو اس طرح اپنا گرویدہ کر لیا جس طرح اس رنگ کی شاعری کر سکتی ہے۔ اس میں کمال یہ ہے کہ حقیقت کے اظہار پر بھی کوئی آنچ نہ آنے دی۔ ان دو باتوں کو ملانا ہی ان کا اصل کمال ہے۔ (جاری)

ای پیپر دی نیشن