پشاور (کاشف احمد) خیبر پی کے اوربالخصوص پشاور میں تواتر کے ساتھ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات نے یہاں کے شہریوں کو ایک بار پھر عدم تحفظ کے احساس سے دوچار کردیا ہے جس کی ایک نمایاں وجہ دہشت گردی کی اس تازہ لہر میں پوری شدت کے ساتھ عوامی مقامات پر شہریوں کو نشانہ بنایا جانا ہے بدھ کی صبح پشاور صدر میں سنہری مسجد روڈ کے مرکزی علاقہ میں مسافر بس میں بم دھماکہ اس سلسلہ کی کڑی ہے خیبر پی کے نیا سال شروع ہوتے ہی دہشت گردحملوں کی زد میں ہے۔ سال 2015کا اختتام مردان میں نادرا آفس پر خودکش بم حملہ کے المیہ سے ہواجس میں 27 افراد جاں بحق جبکہ 56 سے زائد زخمی ہوئے تھے جبکہ نئے سال 2016ء کے آغاز ہی میں دہشت گردوں نے چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی کو اس وقت اپنی کارروائی کا ہدف بنایاجب وہاں طلباء و طالبات کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جس میں 21 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے تھے پشاور کی جدید رہائشی بستی حیات آباد سے ملحقہ خیبر ایجنسی کے علاقہ میں لیوی فورس پر خود کش حملہ کیا جس میں 11 افراد جاں بحق اور 31 زخمی ہوئے اور رواں ماہ چارسدہ کی تحصیل شبقدر کی کچہری میں خودکش بم دھماکہ جیسے بڑے واقعات رونما ہوئے پاک فوج کے افسر لیفٹیننٹ کرنل طارق غفور کی ٹارگٹ کلنگ کے اہم واقعہ بھتہ کی مبینہ وصولی کیلئے مختلف مقامات پر تاجروں اور کاروباری افراد کے گھروں کے باہر دھماکے بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ سرکاری ملازمین کی بس میں بم دھماکے نے درجنوں بچوں اور خاندانوں کے خوابوں کو چکنا چور کردیا دھماکے میں جاں بحق ہونے والے افراد اپنے اپنے خاندانوں اور بچوں کی ہزاروں خواہشیں لیکر اپنی ڈیوٹیوں کیلئے جارہے تھے گھر سے پرائیویٹ ڈسپنسر 40 سالہ اسماعیل بیرون ملک جانے کیلئے میڈیکل کرنے کیلئے پشاور صدر آرہا تھا۔ اسماعیل پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا جس کی چند سال قبل شادی ہوئی تھی، تخت بھائی کا تاجر اکرام اپنے جواں سال بیٹے انعام کے ہمراہ خریداری کیلئے کارخانو مارکیٹ حیات آباد جارہاتھا دھماکے میں انعام اللہ جاںبحق ہو گیا ہے۔ مردان آئی سی ایم ایس کالج حیات آباد میں بی بی اے کا طالب علم تھا جو ہاسٹل میں رہائش پذیر تھا اور گزشتہ روز گائوں سے حیات آباد آرہا تھا۔ ڈی ایس پی مردان سرکل بشیر داد خان کا بھائی ارشد خان جو ٹائون تھری پشاور میں ملازم تھا، اپنی ڈیوٹی کیلئے سیکرٹریٹ بس میں آرہاتھا اور بم دھماکے کے نتیجے میں جاں بحق ہوگیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ بشیر داد خان کو چند ماہ قبل معطل کیا گیا تھا اور دھماکے سے ایک روز قبل انہیں ملازمت پر گیا تھا، ایم فل کرنیوالا طالب عالم اسماعیل بھی دھماکہ میں جاںبحق ہوگیا۔