روسی فوج کی واپسی اسدی آمریت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گی بااختیار عبوری حکومت بنائی جائے :شامی اپوزیشن

Mar 17, 2016

ماسکو(این این آئی+ اے پی پی+ رائٹرز) شام سے روسی طیاروں کی دوسری کھیپ بھی وطن واپس روانہ ہوگئی، روسی جنگی طیاروں کا ایک اور دستہ وطن واپسی کے لیے شام میں حمیمیم کے فضائی اڈے سے روانہ ہوگیا۔ وزارت کے مطابق مذکورہ طیاروں میں کارگو طیارہ Ilyushin Il-76 اور سوخوئی-25 لڑاکا طیارے شامل ہیں۔ ادھر روس کے نائب وزیر دفاع نکولائی بانکوف نے باور کرایا کہ روسی افواج کے جزوی انخلاء کے باوجود روسی فضائی طیارے شام میں داعش اور دیگر دہشت گرد جماعتوں سے مربوط اہداف پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ بانکوف کا کہنا تھا کہ "مشن پورا ہوگیا تاہم دہشت گردی پر قابو پانے کے حوالے سے بات کرنا ابھی قبل از وقت ہوگا روسی فضائیہ پر دہشت گرد تنصیبات کو کاری ضربوں کا نشانہ بنانے کی کارروائیاں جاری رکھنے کی ذمہ داری ہے۔دوسری جانب کریملن نے اعلان کیا ہے کہ روسی فوج شام میں اپنا "جدید ترین" فضائی دفاع کا نظام باقی رکھے گا۔ تاہم سرکاری طور پر اس امر کے ایس-400 میزائل بیٹریوں سے متعلق ہونے کی تصدیق نہیں کی گئی۔شامی صدر بشارالاسد کی ایک اہم مشیر نے کہا ہے کہ رورس کی افواج شام سے انخلاء کے بعد واپس بھی آ سکتی ہے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اب امریکہ کو چاہئے کہ ترکی اور سعودی عرب پر دبائو ڈالے کہ وہ اپوزیشن کے مسلح ارکان کی امداد کا سلسلہ روک دیں۔ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا روسی افواج کا انخلاء مثبت قدم ہے عرب لیگ ن بھی سراپا اور کہا اس سے جنیوا مذاکرات کے ذریعہ تنازعہ کے حل میں مدد ملے گی۔ شام کی اپوزیشن کونسل نے کہا ہے کہ انہوں نے اقوام متحدہ کے امن ایلچی اسٹیفن دی میستورا کو ملک میں عبوری حکومت کے قیام کے لیے اپنا لائحہ عمل بتا دیا ہے۔ ہم ملک میں با اختیار عبوری حکومت کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں۔عرب ٹی وی کے مطابق جنیوا میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شامی اپوزیشن کے سربراہ جارج صبرا نے کہا کہ اقوام متحدہ کے امن مندوب کو بتایا گیا ہے کہ ہم شام میں کس طرح کی عبوری حکومت چاہتے ہیں۔ جب تک شام میں با اختیار اور ہرقسم کے اندرونی اور بیرونی دباؤ سے آزاد عبوری حکومت قائم نہیں ہو گی ہمارے مطالبات پورے نہیں ہو سکتے۔قبل ازیں روسی ذرائع ابلاغ نے شامی اپوزیشن کی سپریم کونسل کے ترجمان سالم المسلط کا ایک بیان نقل کیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن حکومتی وفد کے ساتھ براہ راست مذاکرات میں حصہ لینے کی مخالف نہیں ہے۔ شام سے روسی فوج کی واپسی نے بشارالاسد کی آمریت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے۔انہیں توقع ہے کہ دوست ممالک جنیوا مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے ہرممکن کوشش کریں گے۔ روس سے ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ وہ اپنی تمام فوجیں شام سے نکالے۔ اس کے علاوہ شام میں لڑنے والے تمام غیرملکی جنگجوؤں کو بھی ملک سے بے دخل کیا جائے تاکہ جنگ سے تباہ حال عوام کو سکھ کا سانس لینے کاموقع مل سکے۔

مزیدخبریں